واشنگٹن، ڈی سی (تھرسڈے ٹائمز) — امریکی اخبار ”دی واشنگٹن پوسٹ“ نے لکھا ہے کہ 8 فروری کے عام انتخابات میں نواز شریف فتح یاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ اس کے علاوہ کوئی بھی نتیجہ حیرت انگیز ہو گا۔
واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ تین بار وزیراعظم منتخب ہونے والے میاں نواز شریف کو تینوں بار آئینی مدت مکمل ہونے سے پہلے اقتدار سے بےدخل کر دیا گیا، پاکستانی عوام جمعرات کو ایک بار پھر عام انتخابات میں اپنا فیصلہ سنانے والے ہیں جبکہ سابق وزیراعظم نواز شریف فتح یاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
امریکی اخبار نے لکھا ہے کہ نواز شریف کے سب سے بڑے حریف اور سابق وزیراعظم عمران خان عدالتی مقدمات کے تودے تلے دب چکے ہیں اور پاکستانی فوج سے ٹکراؤ کے بعد جیل میں قید ہیں جبکہ کئی دہائیوں تک فوج کے ساتھ برسرِ پیکار رہنے والے نواز شریف کو عدالت کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے کلیئر کر دیا گیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ فی الحال نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کر چکے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق 2017 میں بدعنوانی کے الزام میں اقتدار سے بےدخل کیے جانے کے بعد نواز شریف اب چوتھی بار وزیراعظم منتخب ہونے والے ہیں جو کہ ان کیلئے خود کو کلیئر کرنے اور پاکستانی سیاست میں مسلم لیگ (ن) کے غلبہ کو مزید طاقتور بنانے کیلئے ایک بہترین موقع ہو گا جبکہ یہ ان کی بیٹی مریم نواز کیلئے لائم لائٹ سے نکلنے کا بھی موقع ہو گا جو کہ مستقبل میں نواز شریف کی جگہ لے سکتی ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ نواز شریف فوجی دباؤ اور قانونی مقدمات سے اجنبی نہیں ہیں، فوجی دباؤ اور قانونی مقدمات نے نواز شریف کے تین ادوارِ حکومت کو قبل از وقت ختم کیا تاہم نواز شریف ہر بار مشکل ترین حالات سے نکل کر ایک بار پھر ابھر کر میدان میں آنے کی مضبوط صلاحیت رکھتے ہیں۔
واشنگٹن میں قائم اخبار کے مطابق پاکستان میں پچھلے دو برس ایسے ہنگامہ خیز رہے ہیں کہ وہ پاکستانی سیاست کے معیارات کے لحاظ سے بھی قابلِ ذکر ہیں، معاشی نمو تاریخی گراوٹ کے گرد گھوم رہی ہے جبکہ عمران خان جیل میں قید رہ کر انتخابی مہم چلانے کی کوششیں کر رہے ہیں اور عسکریت پسندوں کے حملوں نے سیاسی عدم استحکام میں اضافہ کیا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق نوز شریف کو بطور وزیراعظم ایک ایسی فوج کا مقابلہ کرنا پڑے گا جس کے اثر و رسوخ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جبکہ نواز شریف کو عمران خان کے مشتعل حامیوں کا بھی مقابلہ کرنا ہو گا، گزشتہ ہفتے کے دوران عمران خان کو تین مختلف مقدمات میں جیل کی سزائیں سنائی گئی ہیں جن میں کرپشن، غیر قانونی شادی اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی جیسے جرائم شامل ہیں۔
امریکی اخبار نے لکھا ہے کہ نواز شریف 6 برس قبل اقتدار سے اپنی بےدخلی کا ذمہ دار عمران خان کو ٹھہراتے ہیں، نواز شریف عمران خان کی جیل میں قید اور سزاؤں پر تبصرے میں کہہ چکے ہیں کہ جیسا بویا جائے گا ویسا ہی کاٹنا پڑے گا جبکہ انہوں نے عمران خان سے مفاہمت کے امکانات کا کوئی واضح اشارہ نہیں دیا۔
عمران خان 2018 میں وزیراعظم بننے کیلئے تیار تھے جبکہ نواز شریف کو بدعنوانی کے الزامات میں 10 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی، پھر 2019 میں نواز شریف کو علاج کیلئے لندن جانے کی اجازت دی گئی اور بعدازاں مفرور قرار دے دیا گیا تاہم گزشتہ برس عدالت کی جانب سے نواز شریف کو گرفتاری سے عارضی تحفظ فراہم کیا گیا جس سے اکتوبر میں نواز شریف کی وطن واپسی کیلئے راہ ہموار ہوئی جہاں ان کے آبائی شہر لاہور میں ان کے حامیوں نے ہزاروں کی تعداد میں خیر مقدم کیا۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق نواز شریف عمران خان کی طرح بیان بازی میں مہارت نہیں رکھتے تاہم نواز شریف نے ماضی میں ایک بزنس مین اور ایک لیڈر کے طور پر ملکی معیشت کو سنبھالنے کے حوالہ سے اپنی انتخابی مہم کو کامیاب بنایا ہے جبکہ ان کے حامی پُرامید ہیں کہ نواز شریف ایک سٹیٹس مین کی حیثیت سے امریکہ، چین اور دیگر ممالک کے ساتھ باعزت تعلقات کو آگے بڑھائیں گے۔
پیر کے روز نواز شریف نے مری میں ایک انتخابی جلسہ سے خطاب کیا جہاں برفباری کے موسم میں بھی ان کے حامیوں نے ان کا شاندار استقبال کیا، نواز شریف نے 1990 کی دہائی میں علاقہ کی معاشی قسمت کو بدل کر رکھ دیا تھا اور بڑی تعداد میں سیاحوں کی آمد کیلئے ایک موٹروے بھی تعمیر کرائی تھی۔
واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ 6 ماہ سے جیل میں قید عمران خان کی مقبولیت جمعرات کو منعقد ہونے والے عام انتخابات کے نتیجہ میں سیاسی و معاشی استحکام کے امکانات میں کمی کی جانب اشارہ کرتی ہے جبکہ تجزیہ نگاروں کے مطابق نواز شریف کے برسر اقتدار میں آنے کی صورت میں فوج سے ٹکراؤ کے خدشات بھی موجود ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی ترجمان نے انتخابات کے بعد نواز شریف اور فوج کے درمیان ٹکراؤ کے امکانات کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اداروں میں چند ایسے افراد موجود رہے ہیں جو آئین کے خلاف چلنا چاہتے تھے مگر نواز شریف ہمیشہ اداروں کے ساتھ نہایت متوازن تعلقات چاہتے ہیں۔