اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے نجی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتے ہیں، ہم سڑکوں پر احتجاجی تحریک چلائیں گے، اب فیصلے ایوان میں نہیں بلکہ میدان میں ہوں گے، تحریکِ انصاف کو فائدہ پہنچانے کیلئے ہمارے ساتھ دھاندلی کی گئی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ 8 فروری 2024 کے انتخابات چوری ہوئے ہیں اور کسی سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے، تحریکِ انصاف کو فائدہ پہنچانے کیلئے ہمارے ساتھ دھاندلی کی گئی ہے، ہم انتخابات میں دھاندلی کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کریں گے، الیکشن 2018 میں بھی دھاندلی ہوئی تھی اور اب بھی دھاندلی ہوئی ہے، الیکشن میں دھاندلی کا فائدہ وہی اٹھاتا ہے جو اقتدار میں آتا ہے۔
قائدِ جمعیت کا کہنا تھا کہ انتخابات میں دھاندلی کا فائدہ بظاہر مسلم لیگ (ن) کو ہوا ہے، میاں نواز شریف نے لاہور سے جو نشست جیتی ہے اس کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ نشست انہیں دی گئی ہے اور ممکن ہے کہ اسی وجہ سے میاں نواز شریف نے خود حکومت کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے اور اس کام کیلئے شہباز شریف کو نامزد کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں تحریکِ عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھا، عدم اعتماد کی تحریک پیپلز پارٹی چلا رہی تھی، جب سب کچھ ہو رہا تھا تو میں نے بھی قبول کیا کیونکہ اگر میں انکار کرتا تو سب کہتے کہ فضل الرحمٰن نے عمران خان کو بچایا ہے، جنرل (ر) قمر باجوہ اور جنرل (ر) فیض حمید نے تمام سیاسی جماعتوں کو بلا کر کہا تھا کہ آپ تحریکِ عدم اعتماد لائیں۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ جنرل (ر) قمر باجوہ اور جنرل (ر) فیض حمید ہمارے ساتھ رابطے میں تھے، میرے پاس جنرل (ر) فیض حمید خود آئے اور کہا کہ آپ سسٹم میں رہ کر جو کرنا چاہیں ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا لیکن آؤٹ آف سسٹم کچھ نہیں کیجیے گا، میں نے جنرل (ر) فیض حمید کی اس بات کو مسترد کر دیا تھا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے قائدِ مسلم لیگ (ن) میاں نواز شریف کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نواز شریف کا بہت زیادہ احترام کرتا ہوں اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا، نواز شریف پاکستانی سیاست کا حصہ ہیں، نواز شریف کو ملکی سیاست میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے، میں نواز شریف کی اصولی سیاست سے اختلاف نہیں رکھتا اور اسی لیے میں نے صرف مسلم لیگ (ن) جو دعوت دی ہے کہ آئیں میرے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھیں۔
تحریکِ انصاف سے متعلق بات کرتے ہوئے قائدِ جمعیت کا کہنا تھا کہ میرا عمران خان سے کسی بھی قسم کا کوئی رابطہ نہیں ہے، تحریکِ انصاف کے ساتھ جسموں کا نہیں بلکہ دماغ اور سوچ کا فرق ہے اور یہ فرق ختم بھی ہو سکتا ہے، یہ فرق ختم ہو سکتا ہے یا نہیں اور اگر ہو گا تو کیسے ہو گا کے بارے میں ابھی کچھ نہیں جانتا اور نہ کچھ کہہ سکتا ہوں۔
وزارتِ عظمٰی کیلئے ووٹنگ سے متعلق سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اگر ہم کسی کو وزیراعظم کیلئے ووٹ دیتے تو مسلم لیگ (ن) کو دیتے لیکن اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ کسی کو بھی ووٹ نہیں دیں گے، اگر اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ انتخابات صاف اور شفاف ہوئے ہیں تو پھر 9 مئی کا بیانیہ دفن ہو گیا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 8 فروری کے انتخابات کے نتیجہ میں جو پارلیمنٹ وجود میں آ رہی ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی، اس پارلیمنٹ میں فیصلے کوئی اور کرے گا اور پالیسیز بھی کہیں اور سے آئیں گی، یہ پارلیمنٹ تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت والی پارلیمنٹ سے زیادہ ہائبرڈ ہو گی، یہ پارلیمنٹ ہائبرڈ پلس ہو گی، سب لوگ صرف مراعات کیلئے وہاں بیٹھے ہوں گے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میرے علم میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ شہباز شریف کسی وقت استعفیٰ دینے کیلئے تیار تھے اور ان کی تقریر بھی تیار تھی، ہو سکتا ہے کہ ایسا ہوا ہو لیکن میرے نوٹس میں ایسا کچھ نہیں ہے، اگر ایسا کچھ ہوتا تو وہ ضرور اجلاس بلاتے لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ بات اتنی ہائی لائٹ نہ کی گئی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 2018 میں تحریکِ انصاف کی حکومت اسٹیبلشمنٹ نے بنائی تھی اور پھر 2022 میں تحریکِ انصاف حکومت گرانے میں بھی اسٹیبلشمنٹ نے کردار ادا کیا تھا، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ روابط کے حوالہ سے اس حمام میں سب ننگے ہیں، وہ ہمارے ملک کا حصہ ہیں اور ان سے بات کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن ان کے ساتھ سودے بازی کی بات نہیں ہونی چاہیے، کوئی تو ہو جو اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑے ہو کر کہے کہ آپ غلط کر رہے ہیں۔