اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے ایک نجی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ انکشاف کیا ہے کہ انہیں میاں نواز شریف کی وطن واپسی سے دو ماہ قبل ہی معلوم ہو گیا تھا کہ میاں نواز شریف وزارتِ عظمٰی نہیں لیں گے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ مجھے میاں صاحب کی وطن واپسی سے دو ماہ قبل ہی معلوم ہو چکا تھا کہ میاں نواز شریف وزیراعظم نہیں بنیں گے کیونکہ میاں نواز شریف یہ سمجھتے ہیں کہ کچھ حلقوں میں ان سے متعلق تاحال تحفظات موجود ہیں اور اگر میاں نواز شریف ایک بار پھر راہِ راست پر چلیں گے تو وہ تحفظات آڑے آ سکتے ہیں جبکہ میاں نواز شریف نہیں چاہتے کہ ان کی ذات کی وجہ سے پاکستان میں جمہوری نظام ایک بار پھر پٹڑی سے اتر جائے۔
عام انتخابات کے بعد وفاق میں حکومت سازی سے متعلق سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے پہلے آپشن کے طور پر تحریکِ انصاف کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی کوشش کی مگر پھر تحریکِ انصاف کے انکار کے بعد پیپلز پارٹی کے پاس ہمارے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں تھا، اگر پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف کے درمیان حکومت سازی کا معاہدہ طے پا جاتا تو ہم نے کوئی رخنہ نہیں ڈالنا تھا بلکہ آرام سے اپوزیشن میں بیٹھ جانا تھا۔
وفاقی کابینہ کی تشکیل کے حوالہ سے راہنما مسلم لیگ (ن) سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ بنیادی طور پر فیصلہ وزیراعظم نے کرنا ہوتا ہے تاہم ان فیصلوں میں اتحادی بھی شامل تھے، وزیراعظم شہباز شریف نے اتحادی جماعتوں سے مشاورت کر کے نواز شریف کو تمام معاملات سے آگاہ کیا۔
اڈیالہ جیل میں قید سزا یافتہ سابق وزیراعظم عمران خان سے متعلق مراعات اور اخراجات کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جیل میں ایک قیدی کیلئے گیارہ سو روپے ملتے ہیں جس میں اس کا ناشتہ، دن کا کھانا اور رات کا کھانا شامل ہے مگر عمران خان پر روز کا 20 سے 22 ہزار روپے کھانے کا خرچہ آ رہا ہے، ان کا گھر سے کھانا نہیں آ رہا بلکہ ان کا کھانا وہیں جیل میں ہی تیار کیا جاتا ہے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر (ایکس) کی پاکستان میں بندش سے متعلق سوال کے جواب میں جنوبی ایشیا کیلئے امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری خارجہ ڈونلڈ لو کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آزادی کی ایک حد ہوتی ہے اور آزادی جب ایک خاص دائرے میں داخل ہو جائے تو پھر وہ نقصان دہ ہوتی ہے جس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔