لندن (تھرسڈے ٹائمز) — برطانوی اخبار دی گارڈین نے لکھا ہے کہ دوسری بار پاکستان کے صدر منتخب ہونے والے آصف علی زرداری کچھ لوگوں کے نزدیک پاکستان کیلئے ایک ’’ولن‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ کچھ لوگ انہیں پاکستان کیلئے ایک پیرو سمجھتے ہیں۔
دی گارڈین میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں لکھا گیا ہے کہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی وفات کے بعد پاکستانی سیاست میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کی موجودگی مستقل اور اکثر متنازعہ رہی ہے، ان میں سے ایک آصف زرداری ہیں جنہوں نے اتنے سال سیاسی دفتر میں نہیں گزارے جتنے جیل کی کوٹھڑی میں گزارے ہیں، آصف زرداری نے گزشتہ ماہ مسکراتے ہوئے دوسری بار پاکستان کے صدر بننے کا حلف اٹھایا جبکہ اس دوران صدارتی محل میں ’’ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ کے نعرے گونجتے رہے۔
برطانوی اخبار کے مطابق آصف زرداری پہلی بار 1988 کے اواخر میں سیاسی منظر نامہ پر دکھائی دیئے جب ان کی اہلیہ بےنظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں، بےنظیر بھٹو پاکستان میں ایک ممتاز سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، ان کے والد ذوالفقار بھٹو 1970 کی دہائی میں پاکستان کے وزیراعظم رہے لیکن پھر پاکستانی فوج نے ان کے اقتدار کا تختہ الٹ دیا اور پھر ذوالفقار بھٹو کو پھانسی دے دی گئی، بےنظیر بھٹو کو 2007 میں انتخابی مہم کے دوران گولی مار کر قتل کر دیا گیا جبکہ قاتل آج تک نہیں پکڑے جا سکے۔
دی گارڈین کے مطابق 68 سالہ آصف علی زرداری ایک تاجر تھے، انہوں نے بےنظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں فعال کردار ادا کیا تاہم ان کے خلاف الزامات گردش کرنے لگے کہ وہ بےنظیر بھٹو کے دفتر کو بدعنوانی اور سرکاری معاہدوں کیلئے استعمال کر رہے ہیں، جب 1990 میں بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت ختم ہوئی تو کرپشن کے زیادہ تر الزامات کا بوجھ آصف زرداری پر آیا اور انہیں دو سال بعد بدعنوانی کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا جبکہ وسیع پیمانے پر انہیں مسٹر 10 پرسنٹ کہا جانے لگا کیونکہ ان پر یہ الزام تھا کہ وہ مبینہ طور پر 10 فیصد کک بیکس کا مطالبہ کرتے تھے۔
جب 1993 میں بے نظیر بھٹو کو دوسری بار اقتدار ملا تو آصف زرداری کو کابینہ کا وزیر مقرر کیا گیا اور ان کے سیاسی کردار میں بھی اضافہ ہوا بے جبکہ اس دوران پارٹی اور حکومتی معاملات پر آصف زرداری کا اثر و رسوخ بھی بڑھ گیا، جب 1996 میں بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کا خاتمہ ہوا تو آصف زرداری کو نہ صرف کرپشن کے الزامات میں گرفتار کیا گیا بلکہ ان پر اپنے برادرِ نسبتی مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی منصوبہ بندی کا بھی الزام تھا، آصف زرداری کے خلاف کرپشن کے الزامات میں 100 ملین ڈالر بینک ڈیپازٹس اور بیرونِ ملک لگژری جائیدادیں شامل تھیں۔
مرتضیٰ بھٹو کی بیٹی فاطمہ بھٹو اپنی کتاب ’’سونگز اف بلڈ اینڈ سورڈ‘‘ میں اپنے والد کو مبینہ پولیس مقابلہ میں گولی لگ جانے کے بعد ان کے اخری الفاظ یاد کرتے ہوئے لکھتی ہیں؛ ’’اس نے ہمیں پا لیا، زرداری، آخر کار اس نے ہمیں پا لیا‘‘.
دی گارڈین میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں لکھا گیا ہے کہ آصف پزرداری نے تمام الزامات کی تردید کی اور انہیں کبھی قتل کا مجرم نہیں پایا گیا، انہیں 2002 میں اپنی اہلیہ کے دورِ حکومت میں کک بیکس وصول کرنے کے جرم میں سزا سنائی گئی، ایک سال بعد انہیں اور بےنظیر بھٹو دونوں کو جنیوا کی ایک عدالت نے 13 ملین ڈالرز کی منی لانڈرنگ کا مجرم ٹھہرایا گیا تاہم بعد میں دونوں مقدمات کو اپیل میں ختم کر دیا گیا۔
برطانوی اخبار نے لکھا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے بغاوت کا نتیجہ میں اقتدار حاصل کیا جبکہ آصف زرداری نے اگلے آٹھ سال جیل میں گزارے، انہیں جیل میں اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا اور 2004 تک انہیں رہا نہیں کیا گیا، تین سالوں کے بعد جب ان کی اہلیہ بےنظیر بھٹو کو راولپنڈی میں ایک ریلی سے خطاب کے دوران قتل کر دیا گیا تو اس کے بعد آصف زرداری ایک بار پھر سیاسی منظر نامہ پر دکھائی دیئے، آصف زرداری نے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی اور بےنظیر بھٹو کی موت کے بعد عوامی ہمدردی کی لہر کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو شاندار انتخابی فتح ملی تاہم آصف زرداری عوامی مقبولیت کے لحاظ سے کبھی بےنظیر بھٹو کی سطح تک نہیں پہنچ سکے۔
آصف زرداری 2008 کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد پہلی بار صدر مکمل منتخب ہوئے، یہ بڑی حد تک ایک رسمی لیکن مؤثر کردار تھا، آصف علی زرداری کو ایک بار پھر بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کرنے میں دیر نہ لگی جب سوئس حکام نے حکومت پاکستان کی درخواست پر آصف علی زرداری کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ خارج کر دیا جبکہ آصف علی زرداری نے اپنے خلاف تمام الزامات کو مسترد کر دیا۔
دی گارڈین کے مطابق آصف زرداری پاکستان کے پہلے صدر تھے جنہوں نے پانچ سالہ آئینی مدت مکمل کی تاہم پیپلز پارٹی کو 2013 کے عام انتخابات میں عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا جبکہ پاکستان معاشی طور پر تباہی کا شکار تھا، شکست کے بعد آصف زرداری واپس سندھ کے شہر کراچی چلے گئے جو کہ پیپلز پارٹی کا مرکز ہے، وسیع پیمانے پر یہ الزامات لگائے جاتے ہیں کہ آصف زرداری کی پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت اس قدر کرپٹ ہو چکی ہے کہ ان کی انتظامیہ کی جیبوں سے رقم گزرے بغیر کوئی بھی کام نہیں ہو سکتا اور اسی وجہ سے سندھ میں ترقی اور امن و امان کو بہت نقصان پہنچا ہے، یہاں تک کہا جاتا ہے کہ وہ ریونیو، ترقیاتی منصوبوں، سرکاری ٹھیکوں، بلڈنگ اتھارٹیز اور دیگر محکموں میں بھی کک بیکس اور رشوت وصول کرتے ہیں۔
برطانوی اخبار کے مطابق جہاں ذوالفقار بھٹو نے پاکستان کی اس طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا نام روشن کیا جس پر ان کے قتل کی سازش کا الزام لگایا جاتا ہے، آصف زرداری نے خود کو اس لڑائی سے بالکل صاف کر دیا ہے اور انہوں نے وسیع پیمانے پر ان طاقتور جرنیلوں کے ساتھ تعاون کیا ہے جو ملکی سیاست میں کنگ میکر کا درجہ رکھتے ہیں، مبینہ طور پر آصف زرداری پارٹی میٹنگز میں واضح طور پر کہتے ہیں کہ ہمیں فوج کے کردار سے نہیں لڑنا چاہیے کیونکہ ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
اگرچہ آصف زرداری نے کچھ سیاسی باگ ڈور اپنے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو سونپنے کا دعویٰ کیا ہے جو وزیرِ خارجہ بھی رہ چکے ہیں اور آصف زرداری بلاول کے ہمراہ اب پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین ہیں تاہم آصف علی زرداری اب بھی پیپلز پارٹی میں تمام اختیارات اور طاقت پر قابض ہیں اور حتمی سیاسی فیصلے آصف علی زرداری ہی کرتے ہیں۔
دی گارڈین نے لکھا ہے کہ رواں برس فروری کے عام انتخابات کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے پسپائی اختیار کی ہے جبکہ ان کے والد کو اپنا راستہ میسر ہوا ہے، پیپلز پارٹی نے وفاق میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دی ہے، اس سیاسی اتحاد کو اکثریت کیلئے مطلوبہ نمبرز فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے آصف زرداری نے کامیابی کے ساتھ اعلیٰ عہدوں میں سے ایک عہدہ حاصل کیا ہے اور وہ پہلے شخص بن گئے ہیں جو دوسری بار پاکستان کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔
برطانوی اخبار ’’دی گارڈین‘‘ نے لکھا ہے کہ کچھ لوگوں کیلئے آصف علی زرداری ایک ولن ہیں جبکہ کچھ لوگوں کے نزدیک وہ ایک ہیرو ہیں۔