اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — سابق نگران وزیراعظم اور موجودہ سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے نجی نیوز چینل وی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان سوشل اور سٹیٹ سٹرکچر کے وجود کو چیلنج کرنے کی جانب گئے تو یہ خطرناک صورتحال تھی اور پھر اس کو روکنا اشد ضروری ہوتا ہے، عمران خان کی ساڑھے تین سالہ حکومت توقعات پر پوری نہیں اتری، نو مئی کو فوج پر نہیں بلکہ ریاست پر حملہ کیا گیا۔
سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ میں وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت سے بہت اچھی توقعات رکھتا ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ ان کے ارادے ٹھیک ہیں اور وہ پرعزم ہیں، وزیراعظم شہباز شریف کو ملک کے حالات کی نوعیت کا ادراک ہے کہ اگر ہم نے اب پاکستان کو درست سمت میں نہ ڈالا تو مسائل اس قدر گھمبیر ہو جائیں گے کہ پھر پورے کا پورا نظام تباہ ہو جائے گا، مجھے یہ حکومت ختم ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے۔
سینیٹر انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ میں کبھی عمران خان کے ساتھ دوستی کا دعویدار نہیں رہا البتہ میری ان کے ساتھ قربت ضرور تھی، دوستی تو برابر کے لوگوں میں ہوتی ہے جبکہ میں نہیں سمجھتا کہ عمران خان کسی بھی طریقے سے کسی کو بھی اپنے برابر کا سمجھتے ہیں، میری ان کے بارے میں مثبت رائے تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے، اب ان کے بارے میں میری رائے مختلف ہے۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ میں نے 2013 اور 2018 میں تحریکِ انصاف کو ووٹ دیا لیکن ووٹ اس لیے نہیں دیا تھا کہ وہ جا کر جی ایچ کیو پر چڑھ جائیں، میں نے تو اس امید کے ساتھ ووٹ دیا تھا کہ پاکستان کا نظامِ صحت بہتر ہو گا، پاکستان کا انفراسٹرکچر بہتر ہو گا، پاکستان کا بین الاقوامی سطح پر امیج بہتر ہو گا، پاکستان میں روزگار کے مواقع میسر ہوں گے اور ایک بہتر سماجی، سیاسی و معاشی ماحول بنے گا لیکن سب کچھ میری ان توقعات سے برعکس ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی ساڑھے تین سالہ حکومت ہماری توقعات پر پوری نہیں اتر سکی، شاید اس کی وجوہات ناتجربہ کاری تھی یا ہو سکتا ہے کہ کوئی دیگر وجوہات رہی ہوں لیکن پھر جب عمران خان حکومت ختم ہونے پر سوشل اور سٹیٹ سٹرکچر کے وجود کو چیلنج کرنے کی جانب گئے تو یہ خطرناک صورتحال تھی اور پھر اس کو روکنا اشد ضروری ہوتا ہے۔
سابق نگران وزیراعظم نے سانحہ 9 مئی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ میری نظر میں یہ صرف فوج کا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ فوج کوئی ریاست سے آزاد ادارہ نہیں بلکہ ریاست کا ایک حصہ ہے، بظاہر حملے دفاعی تنصیبات پر ہوئے تاہم وہ ریاست کا ہی چہرہ تھیں، نو مئی کا حملہ ریاست پر حملہ تھا، عمران خان کوئی پہلے شخص نہیں تھے جو گرفتار ہوئے، پاکستان میں اس سے پہلے کئی وزرائے اعظم گرفتار ہوئے، انڈیا کے وزرائے اعظم بھی گرفتار ہوئے ہیں، امریکہ کے صدر اور اسرائیلی وزیراعظم بھی گرفتار ہوئے ہیں، دنیا بھر میں ایسی گرفتاریاں ہوتی ہیں، گرفتاری کی صورت میں لوگوں کو یہ دعوت دینا کہ وہ ریاست پر چڑھ دوڑیں یا آگ لگا دیں اور سب کچھ تباہ کر دیں کیونکہ مجھے گرفتار کیا گیا ہے تو یہ ٹھیک نہیں، اگر آپ کو لگتا ہے کہ گرفتاری غلط ہے تو تشدد کی جانب جانے کی بجائے عدالتی سطوح پر اس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
میزبان صحافی عمار مسعود کی جانب سے یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا کسی مقام پر ریاست عمران خان کے جرائم بھی معاف کر سکتی ہے تو سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے جواب دیا کہ ریاست سب سے مقدم ہے، ریاست کے پاس معافی اور سزا دونوں اختیارات موجود ہیں، اب یہ ریاست کا کام ہے اور وقت اس کا تعین کرے گا کہ عمران خان کو سزا دینا ریاست کے مفاد میں ہے یا پھر عمران خان کو معاف کر دینے میں بہتری ہے، اگر عمران خان کو اپنے جرائم کا احساس ہو اور وہ واقعی معافی چاہتے ہوں اور معافی کے ساتھ ساتھ وہ اپنا رویہ بھی ٹھیک کریں تو شاید انہیں معافی دی بھی جا سکتی ہے۔
فارم 47 کے حوالہ سے ایک مبینہ بیان کے بارے میں کیے گئے سوال کے جواب میں انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ میں نے حنیف عباسی کو کوئی طعنہ نہیں دیا، ہمارے درمیان صرف گندم کے معاملہ پر بحث ہوئی تھی، انہوں نے میرے متعلق ایک انٹرویو دیا تھا جس کے بعد میں نے انہیں کہا تھا کہ آپ ایسا نہیں کریں، میں نے فارم 47 کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیا، پاکستان میں ایک گروہ ایسا ہے جو میرے منہ سے ایسی کوئی بات سننا چاہتا ہے جس سے انتخابی عمل کو مشکوک قرار دیا جا سکے مگر میں یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہ فارم 47 کی حکومت ہے۔
الیکشن شفاف یا غیر شفاف ہونے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی فریق کو الیکشن کے حوالہ سے کوئی اعتراض ہے تو اس کیلئے آئین اور قانون نے ایک طریقہ کار کا تعین کیا ہوا ہے، الیکشن کے شفاف ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ میرے یا کسی دوسرے کے جھگڑے سے نہیں ہو سکتا اور نہ اس کا فیصلہ فلاں نے یہ کہہ دیا اور فلاں نے یہ کہہ دیا کی بنیاد پر ہو سکتا ہے۔
سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ تحریکِ انصاف نے الزام لگانا اپنا حق سمجھ لیا ہے مگر فیصلہ کیلئے ٹریبونلز، ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ موجود ہیں، جب تحریکِ انصاف کے سامنے قانونی راستہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ جواب میں کہتے ہیں کہ جی وہ تو پھر نہ کرنے والی بات ہے، اگر آپ کو ٹربیونلز اور ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ پر اعترضات ہیں تو انہیں نگران حکومت نے تو ٹھیک نہیں کرنا تھا، وہ تو پارلیمنٹ کا کام ہے، میں تو کہتا ہوں کہ اگر آنے والے وقت میں آپ نگران حکومت کا تصور ختم کرنا چاہتے ہیں تو کر دیں اور آپ الیکشن کمیشن کو زیادہ طاقتور بنانا چاہتے ہیں تو بنا لیں۔
سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے گندم کے حوالہ سے نگران حکومت کے اقدامات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان گندم کی پیداوار میں خود کفیل نہیں ہے، ہمیں کھانے کیلئے جتنے دانوں کی ضرورت ہے ہم اتنے دانے پیدا نہیں کر پا رہے، کم از کم گزشتہ دس سالوں سے ہماری پیداوار اور ضروریات برابر نہیں ہیں، ہر سال 2 اعشاریہ 4 سے لے کر 3 اعشاریہ 4 ملین میٹرک ٹن کا فرق ہوتا ہے، ہم یہ فرق ہر سال دوست ممالک سے گندم درآمد کر کے پورا کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے کچھ سالوں میں میڈیا چیختا رہا ہے کہ لائنیں لگی ہوئی ہیں، ایک خاتون وفات پا گئی ہے، لوٹ مار ہو گئی ہے کیونکہ گندم کی کمی ہے، یہاں ہمیشہ گندم اور چینی کے فقدان کی وجہ سے بحران کی بات ہوتی رہی ہے مگر آج اضافہ کو بحرانوں کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے، اگر ہم سے نادانستگی میں کوئی غلط فیصلہ ہوا ہے تو سب کچھ لوگوں کے سامنے آنا چاہیے، اگر ہم نے بدنیتی کے تحت کوئی فنانشل کرپشن کی ہے تو وہ بھی سامنے آنی چاہیے، اگر یہ سنجیدہ لوگ غیر سنجیدہ گفتگو کرتے ہوئے کچھ غلط سمجھ بیٹھے ہیں تو تسلیم کریں کہ یہ خود بھی کچھ بہتر نہیں کرنا چاہتے تھے۔
سینیٹر انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں دو بڑے مسائل ہیں، ایک جھوٹ اور دوسرا جہالت جبکہ یہ دونوں کچھ عناصر کیلئے ہتھیار ہیں، کچھ لوگ بات سمجھتے نہیں ہیں اور اس نہ سمجھی ہوئی بات کی بناء پر حملہ کر دیتے ہیں لیکن جب کام نہیں بن پاتا تو پھر جھوٹ کا ہتھیار استعمال کرتے ہیں، میں جب تین سو ارب کی بات کرتا ہوں تو طنزاً کہتا ہوں جبکہ یہ لوگ میرا کوئی بھی جملہ اٹھا لیتے ہیں، پنجاب کی 10 سے 20 سال کی حکومتوں میں یہ نظام اسی طرح چل رہا ہے کہ یہ باردانہ دیتے ہیں اور خریدتے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ ہم نے زیادہ گندم امپورٹ کی ہے حالانکہ صرف 4 لاکھ ٹن گندم زیادہ امپورٹ ہوئی ہے جو صرف تین دنوں کی خوراک ہے۔
صحافی عمار مسعود نے سوال کیا کہ اگر آپ موجودہ حالات میں وزیراعظم ہوتے تو کیا آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی حمایت کرتے؟
سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے جواب دیا کہ ہاں میں موجودہ حالات میں آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی حمایت کرتا، میں آرمی چیف کی مدتِ ملازمت کی توسیع کے حوالہ سے قانون سازی کے خلاف تھا کیونکہ اس میں توسیع کی مدت کا بھی تعین کیا گیا تھا، اب اگر اس متعین مدت کے آخری دنوں میں کسی نیوکلیئر جنگ کا خدشہ لاحق ہو تو آپ کیا کریں گے؟ میری رائے میں مدتِ ملازمت میں توسیع کو براہِ راست سیکیورٹی معاملات کے مطابق دیکھنا چاہیے۔
بلوچستان میں قتل و غارت، مسنگ پرسنز، دہشتگردی، بےروزگاری اور بھوک افلاس سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ کیا بھوک اور افلاس پنجاب میں رہنے والے بلوچوں میں نہیں ہے؟ یہاں وہ قتل و غارت اور دہشتگردی کیوں نہیں کرتے؟ یہ بھی بلوچ ہیں لیکن یہ پنجابیوں کو قتل کیوں نہیں کرتے؟ یہ بیانیہ جہالت اور جھوٹ کی وجہ سے پھیلا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ بھوک اور افلاس ہیں، بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایک گروہ صرف اپنی شناخت کی وجہ سے ایک نئی جغرافیہ چاہتا ہے، وہ بھوک اور افلاس یا پسماندگی کی وجہ سے نیا جغرافیہ نہیں چاہتا بلکہ شناخت کی بنیاد پر چاہتا ہے، بھوک اور افلاس تو گلگت بلتستان میں بھی ہے لیکن وہ تو پاکستان میں شامل ہونے کیلئے تڑپتے ہیں۔
انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کا علیحدگی پسند گروہ صرف بلوچوں کی الگ ریاست چاہتا ہے اور اس ریاست کے حصول کیلئے وہ مسلح جدوجہد، مر جانے اور دوسروں کو مار دینے کو جائز سمجھتا ہے، ان لوگوں کی وکالت اور وضاحت کا حق کسی کو نہیں ہونا چاہیے، میڈیا پر 8 سے 9 بجے تک ان کی وکالت کرنے والوں کو ایسا کوئی حق نہیں ہے، بی ایل اے اور دیگر گروہوں کے بیانات واضح طور پر موجود ہیں کہ وہ علیحدہ بلوچ ریاست چاہتے ہیں، یہ وکالت کرنے والے اور بلوچ حقوق کے بارے میں بات کرنے والے صحافی بتائیں کہ کیا وہ کسی دہشتگرد گروہ کے ترجمان ہیں؟
انہوں نے کہا کہ ریاست پورا حق رکھتی ہے اور یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے دہشتگرد گروہوں کے خلاف طاقت کا استعمال کر سکتی ہے، یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ بی ایل اے کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں ہونا چاہیے تو وہ بتائیں کہ پھر کالعدم ٹی ٹی پی بھی یہی کر رہی ہے تو کیا اس کے خلاف بھی طاقت کا استعمال نہیں کرنا چاہیے؟
سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ میں اگر دیوبندی پشتون ہوتے ہوئے ٹی ٹی پی کے خلاف ریاستِ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوں تو میں بی ایل اے کے خلاف کیوں کھڑا نہ ہوں؟ مجھے تعصب کا طعنہ دینے والے بڑے بڑے طرم خان بتائیں کہ کیا میں نے ٹی ٹی پی کے خلاف پولیس دربار پشاور میں بات نہیں کی ہے؟ میری موت کا فیصلہ بخار سے ہو گا یا خودکش حملے سے ہو گا اس کا فیصلہ اللّٰه رب العزت کرے گا۔