اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — سپریم کورٹ آف پاکستان میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس کو ٹیلی ویژن پر براہِ راست نشر کیا گیا جبکہ کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے کی۔
سماعت کرنے والے 13 رکنی بینچ میں جسٹس منصور علی، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔
آج سماعت کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میرے پاس ریکارڈ آ گیا ہے، الیکشن 2002 اور 2018 میں مخصوص نشستوں سے متعلق بھی ریکارڈ ہے۔
وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ آئین کے مطابق نشستیں سیاسی جماعتوں کو ملیں گی نہ کہ آزاد امیدواروں کو، سیاسی جماعتیں تب مخصوص نشستوں کی اہل ہوں گی جب کم سے کم ایک سیٹ جیتی ہوں گی، مخصوص نشستوں سے متعلق 2002 میں آرٹیکل 51 کو بروئے کار لایا گیا، غیر مسلمانوں کی مخصوص نشستوں کی تعداد 10 ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ 2018 میں 272 مکمل نشستیں تھیں، تین پر انتخابات ملتوی ہوئے اور 13 آزاد امیدوار منتخب ہوئے جبکہ 9 سیاسی جماعتوں میں شامل ہوئے، مخصوص نشستوں کا فارمولا 256 نشستوں پر نافذ ہوا، مخصوص نشستوں سے متعلق 2002 میں آرٹیکل 51 کو بروئے کار لایا گیا، الیکشن 2018 میں 60 خواتین اور 10 غیر مسلم نشستیں مخصوص تھیں۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انتخابات 2002 میں بلوچستان میں 20 فیصد آزاد امیدوار منتخب ہوئے تھے، مخصوص نشستوں کے تعین میں آزاد امیدواروں کو شامل نہیں کیا گیا تھا، جو آزاد امیدوار سیاسی جماعت میں شامل ہو جائے وہ پارٹی کا رکن تصور ہوتا ہے، الیکشن 2002 میں قومی اسمبلی میں پہلی مرتبہ آرٹیکل 51 کے تحت مخصوص نشستوں کا تعین کیا گیا، اسمبلیوں میں آرٹیکل51 کا مقصد خواتین اور اقلیتیوں کی نمائندگی دینا ہے، آزاد امیدوار اگر سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں تو انہیں پارٹی کا حصہ تصور کیا جائے گا، سیاسی جماعت جتنے مخصوص نشستوں کیلئے نام دینا چاہیں دے سکتے ہیں، الیکشن ایکٹ کے تحت اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے اندر چار ماہ میں الیکشن کمیشن کو تمام انتظامات پورے کرنے ہوتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 51 میں نشستوں کا ذکر ہے، رکنیت کا نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 224 رعایت ہے ورنہ کوئی اسمبلی کی مشست خالی نہیں چھوڑی جا سکتی، پارلیمانی نظام کی بنیاد سیاسی جماعتوں پر ہے، سوال یہ ہے آزاد امیدواروں کی اتنی بڑی تعداد کہاں سے آئی؟ کیا لوگوں نے خود ان لوگوں کو بطور آزاد امیدوار چنا؟ کیا الیکشن کمیشن نے خود ان لوگوں کو آزاد نہیں قرار دیا؟ جب ایسا ہوا ہے تو کیا عدالت کو یہ غلطی درست نہیں کرنی چاہیے؟ کیا وہ قانونی آپشن نہیں اپنانا چاہیے جو اس غلطی کا ازالہ کرے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کسی فریق کو یہ کہتے نہیں سنا کہ نشستیں خالی رہیں، ہر فریق یہی کہتا ہے کہ دوسرے کو نہیں نشستیں مجھے ملیں، آپ پھر اس پوائنٹ پر اتنا وقت کیوں لے رہے ہیں کہ نشستیں خالی نہیں رہ سکتیں؟ موجودہ صورتحال بن سکتی ہے یہ آئین بنانے والوں نے کیوں نہیں سوچا؟ یہ ان کا کام ہے، آئین میں کیا کیوں نہیں ہے، یہ دیکھنا ہمارا کام نہیں ہے، بار بار کہہ رہا ہوں ہمارے سامنے موجود آئین کے متن پر رہیں، میں بار بار آئین میں لکھے الفاظ کی بات کر رہا ہوں، اگر آئین میں اس صورتحال کا ذکر نہیں یا غلطی ہے تو آئین جانے اور بنانے والے جانیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان کو ایک بار آئینی راستے پر چلنے دو، اس عدالت کے وہ تمام فیصلے پڑھیں جن میں نظریہِ ضرورت کو متعارف کرایا گیا، اگر آئین کی پیروی کی جائے تو آپ منتخب پارلیمنٹیرینز کو گھر نہیں بھیج سکتے، یہاں سے اپنا ویژن قوم پر مسلط کیا جاتا ہے، کبھی کہا جاتا ہے کہ آئین بنانے والوں نے ٹھیک نہیں سمجھا لہذا ہم اپنا ویژن پارلیمنٹ پر مسلط کر رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بتایا کہ پارلیمانی پارٹی کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی جماعت نے انتخابات میں نشست جیتی ہو، پارلیمانی پارٹی ارکان کے حلف لینے کے بعد وجود میں آتی ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے مزید کہا کہ آزاد اراکین کو کسی اور جماعت کی بجائے تحریکِ انصاف میں شمولیت کی درخواست دینی چاہیے تھی لیکن انہوں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی، انہیں اپنی جماعت تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کرنا چاہیے تھی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ پارلیمانی پارٹی کی مثال غیرمتعلقہ ہے کیونکہ اس معاملہ کا تعلق انتخابات سے پہلے کا ہے، پارلیمانی پارٹی کی تشکیل کا ذکر آئین میں کہاں ہے؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کا ذکر صرف آرٹیکل 63 اے میں ہے، آرٹیکل 63 اے کے اطلاق کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمانی پارٹی موجود ہو، فیصل صدیقی نے کہا تھا اگر سنی اتحاد کونسل کو نشستیں نہیں ملتی ہیں تو انہیں خالی چھوڑ دیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ سیاسی جماعت اگر پارلیمانی پارٹی نہ ہو لیکن سیٹ جیتے تو پارلیمانی پارٹی تصور کی جائے؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ انتخابات ہی تعین کریں گے کہ پارلیمانی پارٹی کون ہو گی، آزاد امیدوار اگر ہوں تو پارلیمانی پارٹی میں شامل ہو سکتے ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ میں آزاد امیدوار کے بارے میں نہیں پوچھ رہی، میں انتخابات میں حصہ لینے کے حق کے حوالے سے پوچھ رہی، آپ کے مطابق سیاسی جماعت ہی پارلیمانی پارٹی بنے گی، ابھی تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ آزاد امیدوار سیاسی جماعت ہیں یا نہیں۔
جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ آپ کے مطابق آرٹیکل 51 کے تحت سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت نہیں، لیکن ضمنی الیکشن جیتنے کے بعد پارلیمانی پارٹی بن چکی؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ اگر سنی اتحاد ضمنی انتخابات میں جیت جاتی ہے تو پارلیمانی پارٹی بن سکتی ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن سنی اتحاد کونسل کو سیاسی جماعت تصور نہیں کرتا تو پارلیمانی پارٹی کیسے بن سکتی ہے؟
جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ جو آزاد امیدوار کسی پارلیمانی پارٹی میں شامل نہ ہوں تو کیا ہو گا؟ قانون تو کہتا ہے کہ 3 روز میں سیاسی جماعت میں شامل ہوں، آزاد امیدوار کیسے رہیں گے؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ آزاد امیدوار اگر کسی جماعت میں شامل نہیں ہوتے تو وہ آزاد ہی رہیں گے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے دلائل ختم ہونے کے بعد عدالت نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت 9 جولائی تک ملتوی کر دی۔