اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — سپریم کورٹ آف پاکستان میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر براہِ راست نشر کیا گیا جبکہ کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے کی۔
سماعت کرنے والے 13 رکنی بینچ میں جسٹس منصور علی، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔
آج سماعت کا آغاز ہوا تو سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 218 کے تحت دیکھنا ہے کیا الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری شفاف طریقہ سے ادا کی یا نہیں؟ ثابت کروں گا الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری مکمل نہیں کی، کیس سیدھا ہے کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں دی جا سکتیں، مؤقف اپنایا گیا کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، مخصوص نشستوں کی لسٹ جمع نہیں کروائی۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ 2018 میں بلوچستان عوامی پارٹی نے کوئی نشست نہیں جیتی لیکن تین مخصوص نشستیں ملیں، الیکشن کمیشن نے بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق بےایمانی پر مبنی جواب جمع کروایا، الیکشن کمیشن کے سامنے معاملہ سپریم کورٹ سے پہلے بھی لے کر جایا گیا تھا، الیکشن کمیشن اپنے ہی دستاویزات کی نفی کررہا ہے، کیا یہ بےایمانی نہیں؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بھول جائیں الیکشن کمیشن نے کیا کہا، کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کے مطابق تھا؟
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق قانون پر مبنی تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کا بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق مخصوص نشستوں کا فیصلہ چیلنج کیا؟
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کہہ دیتا کہ غلطی ہو گئی، الیکشن کمیشن نے ایسا رویہ اختیار کیا جیسے بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق فیصلے کا وجود ہی نہیں۔
جسٹس عرفان سعادت نے استفسار کیا کہ کیا بلوچستان عوامی پارٹی نے خیبرپختونخوا انتخابات میں حصہ لیا؟
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے خیبرپختونخوا انتخابات میں حصہ لیا لیکن کوئی نشست نہیں جیتی۔
جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیئے کہ آپ کا کیس مختلف ہے، سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا، ابھی دلائل دیں لیکن بعد میں تفصیلی جواب دیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ باپ پارٹی! نام عجیب سا ہے!
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اگر کوئی پارٹی باقی صوبوں میں نشست حاصل کرے اور ایک صوبے میں نہ کر سکے تو کیا ہو گا؟
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے دیگر صوبوں میں نشست جیتی لیکن خیبرپختونخوا میں کوئی سیٹ نہیں حاصل کی، الیکشن کمیشن کا غیر شفاف رویہ ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ چاہتے ہیں سپریم کورٹ جوڈیشل نوٹس لے؟ اگر نہیں تو ذکر کیوں کر رہے ہیں؟ آپ چاہتے ہیں کہ 2018 کے انتخابات کے حوالے سے کیس لیں تو لے لیتے ہیں لیکن سپریم کورٹ 2018 انتخابات پر انحصار نہیں کرے گی، اگر الیکشن 2018 کی بات کریں گے تو پھر پورے الیکشن 2018 کو کھولنا ہو گا۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن امتیازی سلوک کر رہا ہو تو سپریم کورٹ دیکھے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ یعنی 2018 میں الیکشن کمیشن ٹھیک تھا؟ کیا سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کی تشریح کی پابند ہے؟ آپ کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا، کیا 2018 کے انتخابات درست تھے؟
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت کہہ رہی تھی مداخلت کیوں کریں، میں وہ وجہ بتا رہا ہوں، عدالت الیکشن کمیشن کے غیر منصفانہ اقدامات کو مدنظر رکھے، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آئین میں اقلیتوں کی شمولیت پر پابندی ہے۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے عدالت کے روبرو جمعیت علمائے اسلام (ف) کی رکنیت پر مبنی جماعتی آئین پیش کر دیا۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کو اقلیتی نشست بھی الاٹ کی گئی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا جمعیت علمائے اسلام (ف) کو اقلیتی نشست نہیں ملنی چاہیے؟
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ کامران مرتضٰی اس پر وضاحت دے چکے ہیں کہ مس پرنٹ ہوا تھا۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کامران مرتضٰی کی وضاحت ہوا میں ہے، جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ویب سائٹ سے آئین ڈاؤن لوڈ کیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل میں صرف سنی شامل ہو سکتے ہیں؟
وکیل نے جواب دیا کہ سنی اتحاد کونسل میں تمام مسلمان شامل ہو سکتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا باقیوں کو آپ مسلمان سمجھتے ہیں؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اس اعتبار سے سنی اتحاد کونسل کو کوئی نشست نہیں ملنی چاہیے، سنی اتحاد کی کوئی جنرل سیٹ نہیں تو آپ کے دلائل کے مطابق مخصوص نشست کیسے مل سکتی ہے؟
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ مخصوص نشستیں غیر متناسب نمائندگی کے اصول کے مطابق نہیں دی جا سکتیں، جنہیں آزاد کہا جا رہا ہے وہ آزاد نہیں ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ اپنے خلاف ہی دلائل دے رہے ہیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میں آپ کو قائل نہیں کر سکا یہ الگ بات ہے لیکن ہمارا کیس یہی ہے جو دلائل دے رہا ہوں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے دلائل مان کر نشستیں تحریکِ انصاف کو دے سکتے ہیں؟
وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل پارلیمنٹ میں موجود ہے، نشستیں اسے ملیں گی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ووٹ اور ووٹرز کے حق پر کوئی دلائل نہیں دے رہا، الیکشن کمیشن اپنی نیک نیتی ثابت کرنے کیلئے ڈیٹا نہیں دے رہا کہ انتخابات شفاف ہوئے، ایک سیاسی جماعت کو انتخابی عمل سے باہر کیا گیا، آرٹیکل 51 سیاسی جماعتوں کے حقوق یقینی بناتا ہے، سال 2018 کے انتخابات پر بھی سوالات ہیں، کیا وہی کچھ دوبارہ کرنے دیں کیونکہ 2018 میں بھی سوالات الیکشن کمیشن پر اٹھے تھے۔
وکیل سنی اتحاد کونسل فیصل صدیقی نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کے لوگ آزاد نہیں ہیں، الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کیا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ مخصوص نشستوں کی تقسیم کے وقت شاید سنی اتحاد کونسل والے آزاد تھے۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے وقت بھی آزاد امیدوار سنی اتحاد کونسل کا حصہ بن چکے تھے، الیکشن کمیشن کے اپنے ریکارڈ سے یہ بات ثابت شدہ ہے، الیکشن کمیشن اسی وقت کہہ دیتا آپ سنی اتحاد کونسل میں شامل نہیں ہو سکتے، الیکشن کمیشن کا مسلسل ایک ہی مؤقف رہتا تو بات سمجھ آتی۔
جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیئے کہ فیصل صدیقی آپ کی جماعت کو تو بونس مل گیا، آپ کی جماعت نے الیکشن نہیں لڑا اور اسی 90 نشستیں مل گئیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا الیکشن نارمل حالات میں اور شفاف ہوئے تھے؟ ایک بڑی سیاسی جماعت کو اپنے امیدوار دوسری جماعت میں کیوں بھیجنے پڑے؟
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ دیکھنا ہے کہ آزاد امیدواروں نے کیسے پارٹیز میں شمولیت اختیار کی؟ پارٹی کے پارلیمانی لیڈر کو آزاد امیدواروں کی شمولیت کے حوالے سے بتانا ہو گا، آزاد امیدوار کی بھی مرضی شامل ہونی چاہیے، الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق اگر کوئی سیاسی جماعت کا ممبر ہے تو اسی سیاسی جماعت کا نشان اسے ملنا چاہیے، کسی سیاسی جماعت کو چھوڑے بغیر نئی جماعت میں شمولیت نہیں ہو سکتی۔
تحریکِ انصاف کی خواتین ونگ کی صدر کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں عدالت کے سامنے 10 منٹ میں بہت مختصر دلائل رکھنا چاہتا ہوں، الیکشن کمیشن ریکارڈ چھپا رہا ہے، الیکشن کمیشن کے عدالت میں جمع کرائے گئے دستاویزات قابلِ اعتبار نہیں، تحریکِ انصاف نظریاتی کا ٹکٹ واپس بھی لے لیا گیا تھا، میں ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ الیکشن کمیشن نے اپنا ہی ریکارڈ دبانے کی کوشش کی، الیکشن کمیشن نے مکمل دستاویزات جمع نہیں کروائے۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے مزید کہا کہ الیکشن کمشین کا جمع کرایا گیا ریکارڈ قابلِ قبول نہیں۔
جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیئے کہ کسی زمانے میں حکومت اور آئینی ادارے نیک نیتی سے فریق بنتے تھے، اب تو الیکشن کمیشن مقدمہ ہر صورت جیتنے آیا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آپ کا مؤقف ہے تحریکِ انصاف میں ہوتے ہوئے سنی اتحاد کونسل میں جانا درست ہے؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے غلط فیصلے کے ذریعہ آزاد قرار دیا، آزاد قرار پانے پر سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا تحریکِ انصاف کو مخصوص نشستیں نہیں چاہئیں؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کی بنتی ہیں، پارٹی میں شمولیت کیلئے جنرل نشستیں ہونا لازمی قرار دینا غیرآئینی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا عدالت کو انتخابی عمل میں ہونے والی غلطیوں کی تصحیح نہیں کرنی چاہیے؟
وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عدالت آئین پر عملدرآمد کیلئے کوئی بھی حکم جاری کر سکتی ہے۔
اسی کے ساتھ سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت مکمل ہو گئی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل کورٹ بینچ نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔