اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — ایم کیو ایم پاکستان کے مقتول راہنما علی رضا عابدی کی والدہ نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید کو علی رضا عابدی قتل کیس میں شاملِ تفتیش کرنے کا مطالبہ کر دیا۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے مقتول راہنما اور سابق رکنِ قومی اسمبلی علی رضا عابدی کہ والدہ نے ایک نجی نیوز چینل پر معروف صحافی ابصار عالم کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) جنرل (ر) فیض حمید کو علی رضا عابدی کے قتل کیس میں شاملِ تفتیش کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
علی رضا عابدی کی والدہ صبیحہ اخلاق حسین نے کہا ہے کہ علی رضا عابدی کے قتل کو قریباً 6 سال گزر چکے ہیں مگر ابھی تک ہمیں انصاف نہیں مل سکا، ٹاپ سٹی سے متعلق انکوائری ہو رہی ہے اور ٹاپ سٹی کا مالک عبدالمعیز کنور میرے بیٹے علی رضا عابدی کا دوست تھا، جب 2017 میں عبدالمعیز کنور کو گرفتار کیا گیا اور تشدد کیا گیا تو علی رضا عابدی رکنِ قومی اسمبلی تھے، علی رضا عابدی نے قومی اسمبلی میں اس کیلئے آواز اٹھائی۔
ڈاکٹر صبیحہ اخلاق حسین کا کہنا تھا کہ اس کے بعد جنرل (ر) فیض حمید اور دیگر افراد علی رضا عابدی کے مخالف بن گئے تھے، علی رضا عابدی کے قتل سے پہلے 6 ماہ تک ریکی کی گئی، علی رضا عابدی کو دھمکیاں بھی دی گئیں اور دباؤ ڈالا گیا، اب جبکہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید گرفتار ہو چکے ہیں تو میں یہ مطالبہ کرتی ہوں کہ فیض حمید کو علی رضا عابدی کے قتل کیس میں شاملِ تفتیش کیا جائے۔
مقتول رکنِ قومی اسمبلی علی رضا عابدی کی والدہ نے کہا کہ میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے مطالبہ کرتی ہوں کہ وہ ہمیں انصاف دلائیں، میرے شوہر اخلاق حسین نے اپنے بیٹے علی رضا عابدی کے قتل سے متعلق دن رات محنت کر کے ثبوت اکٹھے کیے تھے، ہمارے پاس کالز کا مکمل ڈیٹا ریکارڈ موجود ہے، میری درخواست ہے اس کیس کو سامنے لایا جائے، ہمارے پاس اس کیس سے منسلک بہت سارے ثبوت موجود ہیں۔
ڈاکٹر صبیحہ اخلاق حسین نے بتایا کہ میرے بیٹے علی رضا عابدی کو شدید زخمی حالت میں ہاسپٹل لے جایا گیا، میں اپنی گود میں اپنے زخمی بیٹے کو گاڑی میں ہاسپٹل لے کر گئی جبکہ گاڑی میرے شوہر اخلاق حسین چلا رہے تھے، ہاسپٹل پہنچے تو تھوڑی دیر کے بعد ڈاکٹر نے اناؤنس کر دیا کہ علی رضا عابدی کا انتقال ہو گیا ہے، میں فوری طور پر کمرے کے اندر گئی تو میں نے دیکھا کہ اس کو کوئی طبی امداد نہیں دی گئی تھی، اس کو خون لگایا گیا نہ کوئی آکسیجن دی گئی، مین نے علی رضا عابدی کے ماتھے کا بوسہ لیا تو وہ اُس وقت تک گرم تھا۔
یاد رہے کہ 46 سالہ سابق رکنِ قومی اسمبلی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سینئر راہنما علی رضا عابدی کو 25 دسمبر 2018 کو کراچی کے علاقہ ڈیفنس میں خیابانِ غازی پر واقع ان کے گھر کے باہر دو موٹر سائیکلز پر سوار گھات لگائے حملہ آوروں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔