راولپنڈی (تھرسڈے ٹائمز) — ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف نے کہا ہے کہ دہشتگردوں اور ان کے سہولتکاروں کے خلاف رواں برس 32 ہزار 173 آپریشنز کیے، ریاست اپنے شہریوں کے جان و مان اور ترقی کے دشمنوں سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹے گی، پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزیوں کے متعدد واقعات ثابت ہونے پر لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف فیلڈ مارشل کارروائیوں کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل احمد شریف نے اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے قومی سلامتی کے امور اور دہشتگردی کے خلاف اقدامات کا ذکر کیا ہے، انہوں نے کہا کہ آج سب سے پہلے فتنہ الخوارج اور بلوچستان میں دہشتگردوں کے خلاف کی گئی کارروائیوں کا جائزہ پیش کرنا ہے، دہشتگردوں اور ان کے سہولتکاروں کے خلاف رواں برس 32 ہزار 173 آپریشنز کیے گئے۔
میجر جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کہ ان آپریشنز کے دوران 90 خوارج کو واصلِ جہنم کیا گیا، دہشتگردی کے ناسور سے نمٹنے کیلئے روزانہ کی بنیاد پر 130 سے زائد آپریشن کیے جا رہے ہیں، ان آپریشنز کے دوران 193 افسران اور جوانوں نے جامِ شہادت نوش کیا، قوم شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ہے، آخری خارجی اور دہشتگرد کے خاتمہ تک جنگ جاری رہے گی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 20 اگست سے وادی تیراہ میں فتنہ الخوارج، نام نہاد کالعدم تنظیم لشکر اسلام اور جماعت الحرار کے خلاف کامیاب آپریشن کیا گیا جبکہ اس کے نتیجہ میں فتنہ الخوارج کو بڑا دھچکا لگا، کارروائیوں کے دوران انتہائی مطلوب خارجی ابوذر المعروف صدام سمیت 37 خوارج کو جہنم واصل کیا گیا جبکہ 14 دہشتگرد زخمی ہوئے، اس دوران ہمارے 4 بہادر جوانوں نے جامِ شہادت نوش کیا ہے۔
انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا تھا کہ 25 اور 26 اگست کی رات دہشتگردوں نے بلوچستان میں کارروائیاں کیں، یہ کارروائیاں اندورن و بیرون ملک دہشتگردوں کی ایماء پر کی گئیں جن کا مقصد بےگناہ افراد کو نشانہ بنا کر بلوچستان کے پرامن ماحول اور ترقی کو متاثر کرنا ہے، فورسز نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے 21 دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا، اس دوران 14 جوان شہید ہوئے۔
ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ہمیں معلوم ہے بلوچستان کے عوام میں احساسِ محرومی اور ریاستی جبر کا تاثر بھی پایا جاتا ہے جس کو بیرونی ایماء پر مخصوص عناصر منفی مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں، وہ اس کو اس لیے پھیلاتے ہیں تاکہ بلوچستان میں ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کا جاری عمل خوف ہ ہراس کے ذریعے متاثر کیا جا سکے، جب دہشتگردوں کے خلاف کارروائیاں ہوں گی، جب ترقی نہیں ہو گی تو اس سے احساسِ محرومی اور ریاستی در اندازی کا بیانیہ مزید بڑھے گا، دہشتگردوں کے سرپرست ریاست کو مزید موردِ الزام ٹھہرائیں گے اور گھناؤنے عمل کو جاری رکھ سکیں گے بلوچستان میں 25 اور 26 اگست کی رات کو ہونے والے واقعات اسی بیرونی فنڈنگ پر چلنے والے کھیل کا حصہ تھے۔
میجر جنرل احمد شریف نے کہا کہ کرنے والوں اور کرانے والوں کا انسانیت اور بلوچ اقدار سے کوئی تعلق نہیں، نہتے شہریوں کو ظلم کا نشانہ بنانا اور اس پر فخر کرنا ان کی ذہنیت اور مایوسی کی عکاسی ہے، دہشتگردوں کو واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ شہریوں کے جان و مان اور ترقی کے دشمنوں سے ریاست آہنی ہاتھوں سے نمٹے گی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کہ پاک فوج خود احتسابی کے عمل پر یقین رکھتی ہے، اس کا خود احتسابی کا نظام انتہائی جامع اور مضبوط عمل ہے جو ٹائم ٹیسٹڈ ہے، یہ الزامات کے بجائے ٹھوس شواہد اور ثبوتوں کی بنیاد پر کام کرتا ہے، جب بھی فوج میں قائم قوانین اور ضابطوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو یہ خود کار نظام حرکت میں آتا ہے، آئی ایس پی آر کی جانب سے 12 اگست کو جاری کردہ اعلامیے میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کے حوالہ سے بتایا گیا تھا، ریٹائرڈ افسر کے خلاف ٹاپ سٹی کیس میں باضابطہ طور پر درخواست موصول ہوئی، اپریل 2024 میں پاک فوج کی طرف سے اعلٰی سطح کی کورٹ آف انکوائری کا حکم دیا گیا تاکہ مکمل تحقیات کی جا سکے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ 12 اگست 2024 کو بتایا گیا کہ سابق افسر نے پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزیاں کی ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی جانب سے متعلقہ قوانین کی خلاف ورزیوں کے متعدد واقعات بھی سامنے آئے، ان بنیادوں پر فیلڈ مارشل کارروائیوں کا آغاز کر دیا گیا ہے، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان آرمی قومی فوج ہے، اس کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے نہ یہ کسی سیاسی جماعت کی مخالف ہے اور نہ طرفدار ہے، فوج کا ہر حکومت کے ساتھ پیشہ ورانہ تعلق ہوتا ہے جو آئین اور قانون میں مناسب طور پر بیان کیا گیا ہے۔
میجر جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کہ اگر فوج میں کوئی شخص اپنے ذاتی مفادات کے حصول کیلئے کام کرتا ہے یا اپنے ذاتی فائدے کیلئے کسی مخصوص سیاسی ایجنڈے کو پروان چڑھاتا ہے تو پاک فوج کا خود احتسابی کا نظام حرکت میں آتا ہے، ثبوت اور شواہد کی روشنی میں ذمے داروں کو ان کے اعمال کا جوابدہ ہونا پڑتا ہے، جاری عمل اس بات کی ایک اور دلیل ہے، پاک فوج میں واضح اتفاقِ رائے ہے کہ فوج کو بحیثیت ریاستی ادارہ کسی بھی سیاسی مفاد کی تکمیل کے طور پر استعمال سے محفوظ رکھا جائے گا۔
ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز پبلک ریلیشنز نے کہا کہ متعلقہ افسران کو قانون کے تحت مرضی کا وکیل کرنے اور اپیل سمیت دیگر حقوق حاصل ہوں گے، فیض حمید کیس اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ پاک فوج ذاتی اور سیاسی مفادات کیلئے کی گئی خلاف ورزیوں کو کس قدر سنجیدگی سے لیتی ہے اور بلا تفریق قانون کے مطابق کارروائی کرتی ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ اس طرح کی بلا تفریق خود احتسابی باقی اداروں کو بھی ترغیب دیتی ہے کہ اگر ذاتی یا سیاسی مقاصد کیلئے کوئی اپنے منصب کو استعمال کرتا ہے تو اس کو وہ بھی جوابدہ کریں گے، ریاستی اداروں پر عوامی اعتماد ہی ان کا بہترین سرمایہ ہے۔
میجر جنرل احمد شریف سے سوال پوچھا گیا کہ فیض حمید اور ان کے کورٹ مارشل کی کارروائی آگے بڑھنے کے دوران پی ٹی آئی (پاکستان تحریکِ انصاف) کی جانب سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ عمران خان کو فوجی تحویل میں لیا جا سکتا ہے یا ان کے خلاف فوجی ایکٹ تحت کارروائی ہوسکتی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے جواب دیا کہ یہ ایک زیرِ سماعت معاملہ ہے اور آپ کا سوال مفروضوں پر مبنی ہے لیکن میں آپ کو یہ ضرور کہوں گا کہ فوجی قانون کے مطابق کوئی بھی شخص، اگر کسی فرد یا افراد کو جو آرمی ایکٹ کے تابع ہوں، ان کو ذاتی یا سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرے اور اس کے ثبوت اور شواہد موجود ہوں تو قانون اپنا راستہ خود بنا لے گا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ انسدادِ دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی جنگ ایک منظور شدہ اور مربوط حکمتِ عملی کے تحت لڑی جا رہی ہے، مختلف سیاسی جماعتوں اور سٹیک ہولڈرز اور تمام حکومتوں نے اس حکمتِ عملی کو مرتب کیا ہے، یہ نیشنل ایکشن پلان اور ریوائزڈ نیشنل ایکشن پلان اور اب عزمِ استحکام کے نام سے ایک دستاویزی شکل میں بھی موجود ہے، اس کے اندر جو افواجِ پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کام ہیں وہ بھی ایک مربوط حکمتِ عملی کے تحت کیے جاتے ہیں، اس کے چار مراحل کلیئر، ہولڈ، بلڈ اور ٹرانسفر ہیں، جو دہشتگردی بڑھ رہی ہے ہمیں سمجھنا ہو گا کہ کیا ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مربوط حکمتِ عملی کے تحت جو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوج نے کام کرنا ہے کہ دہشگردوں سے علاقوں کو پاک کرنا اور ان کو عارضی طور پر ہولڈ کرنا تاکہ وہاں پر جو باقی عہدیداران اور انتظامیہ ہیں ان کیلئے سازگار ماحول فراہم کیا جا سکے تاکہ جس میں وہ سماجی اور معاشی منصوبے لگائیں اور پھر اس علاقے کو مکمل طور پر اپنے اختیار میں لیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوج نے دو دہائیوں سے زیادہ دہشتگردی کی جنگ لڑی ہے اور اس میں 46 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ علاقے کو دہشتگردوں سے کلیئر کیا ہے۔
میجر جنرل احمد شریف نے کہا کہ ہم ہمیشہ کہتے آئے ہیں کہ پاکستان میں عملاً کوئی ایسا علاقہ نہیں جہاں دہشتگردوں کی اجارہ داری ہو، جو کلیئر اور ہولڈ کے مراحل ہیں وہ تو مکمل ہو چکے ہیں، انٹیلیجنس بیسڈ چھوٹے بڑے تمام آپریشنز جو قانون نافذ کرنے والے اداروں جن میں پولیس اور انٹیلیجنس ایجنسیز شامل ہیں یہ اسی کو مزید تقویت اور دوام دینے کیلئے کیے جاتے ہیں، اب جو بلڈ اور ٹرانسفر کا کام ہے اس میں تمام سٹیک ہولڈرز کا یہ عزم ہے کہ اس کو مکمل ہونے کی ضرورت ہے اور اس میں جو ذمہ داری ہے وہ لوکل گورنمنٹ اور صوبائی حکومت کی ہے کیونکہ اس میں انہوں نے صحت و تعلیم اور روزگار کے سماجی منصوبے لانے ہیں تاکہ عوام کو ایک روزمرہ زندگی میں مصروف کیا جائے۔
انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا تھا کہ پاک فوج بڑھ چڑھ کر وفاقی و صوبائی حکومت اور لوکل گورنمنٹ کی اعانت کرتی ہے اور صحت و تعلیم، روزگار اور ترقی کے متعدد منصوبوں کیلئے خیبرپختونخوا و بلوچستان میں پاک فوج کے یونٹس اور فارمیشن کام کر رہے ہیں، کلیئر اور ہولڈ کے بعد بلڈ اور ٹرانسفر کا مرحلہ مکمل نہیں ہو رہا، حکومت کی اجارہ داری کا اہم انحصار فوجی آپریشنز پر رہ گیا، ان علاقوں میں حکومتی اجارہ داری کا ذریعہ صرف یہ فوجی آپریشنز نہیں ہو سکتے اور اس وجہ سے کئی ایسے علاقوں کو ہمیں بار بار کلیئر کرنا پڑ رہا ہے، اس کا نقصان یہ ہے کہ بلڈ اور ٹرانسفر کے نہ ہونے کی وجہ سے آرمی کی جو لمبے عرصے تک اس علاقے میں تعیناتی ہے اس کے اپنے مسائل ہیں اور اس کی وجہ سے فوج کے خلاف ایک زہریلا بیانیہ بنانے کا لوگوں کو موقع مل گیا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ دوسری وجہ ہمیں اعداد و شمار کے شواہد بتاتے ہیں کہ اگست 2021 کے بعد سے فتنہ الخوارج اور دہشتگردوں کی سہولتکاری بڑھ چکی ہے جب سے افغانستان میں تبدیلی آئی ہے، یہ سہولتکاری چاہے ٹریننگ کیمپس کی شکل میں ہو یا نقل و حمل کی مدد فراہمی کی صورت میں یا یہ افغان شہریوں کی خود فتنہ الخوارج میں شامل ہونے کی شکل میں ہو چاہے خود کش بمباروں یا چھوڑے ہوئے امریکی اسلحہ کی جدید فراہمی کی شکل میں ہو یہ بڑھ چکی ہے، اس سلسلہ میں حکومت پاکستان افغان عبوری حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے اور افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور پاکستان نے اس نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان پر خوارجین کو فوقیت نہ دے۔
انہوں نے کہا کہ خوارجین کا نہ کوئی دین اسلام سے تعلق ہے اور نہ ان کا کوئی انسانیت سے تعلق ہے اور نہ ان کا کوئی قبائلی اقدار سے تعلق ہے، حکومت پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہت سی چیزوں پر اچھے تعلقات ہیں اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان دو برادر اسلامی ممالک میں غلط فہمیاں پیدا کر کے رخنہ ڈال دیں ان کو ہم یہی کہیں گے وہ خیالی دنیا میں رہتے ہیں، فوج دہشتگردوں سے لڑتی ہے اور قوم دہشتگردی سے لڑتی ہے، اس لیے حکومت نے عزمِ استحکام کے نام سے ریوائز نیشنل ایکشن پلان کی نئی شکل تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر پیش کی جس کا مقصد دہشتگردی کو مکمل طور پر ختم کرنے کیلئے اقدامات ہیں اٹھانا ہے جس میں ذمہ داری باقی سٹیک ہولڈرز کی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کہ ان میں سے تین اہم اقدامات پاکستان کے فوجداری قانون کو مضبوط کیا جانا، دہشگردوں اور جرائم پیشہ مافیاز کے گٹھ جوڑ کو توڑا جانا اور تیسرا پوری قوم کا یک زبان ہو کر دہشتگردی اور شدت پسندی کے خلاف ایک بیانیے پر کھڑا ہونا ہے، اس میں باقی سٹیک ہولڈرز کی ذمہ داری ہے، ہم ہمیشہ کی طرح ان کی بھرپور اعانت کرتے رہیں گے۔