اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ آئین کی بالادستی کے بغیر پارلیمنٹ سمیت کوئی ادارہ نہیں چل سکتا، سیاست اپنی جگہ لیکن ہمین ورکنگ ریلیشن شپ قائم رکھنا ہے، حکومت کا کام آگ بجھانا ہے مزید آگ لگانا نہیں، اپوزیشن کا بھی یہ کام نہیں کہ ہر وقت گالی دے، ہمیں اپنی ذمہ داریاں سمجھنا ہوں گی۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ عوام نے اپنے نمائندوں کو منتخب کیا مگر یہاں سیاست کو گالی بنا دیا گیا ہے، اسمبلی کی گیلریز میں اس وقت طلباء بیٹھے ہیں جو ملک کا مستقبل ہیں، ہم نے اسی سیاست سے عوام کو تحفظ اور ریلیف دینا ہے، ہم باہر جو سیاست کریں وہ ہمارا مسئلہ ہے لیکن ایوان کے اندر ہمیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ آئین کی بالادستی کے بغیر پارلیمنٹ سمیت کوئی ادارہ نہیں چل سکتا، سیاست اپنی جگہ لیکن ہمین ورکنگ ریلیشن شپ قائم رکھنا ہے، ہمیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں، حکومت کا کام آگ بجھانا ہے مزید آگ لگانا نہیں، اپوزیشن کا بھی یہ کام نہیں کہ ہر وقت گالی دے، ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہو گا اور انہیں نبھانا ہو گا۔
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے کہا ہے کہ اگر حکومت یہ سوچے گی کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ہے تو یہ ایک دن کی خوشی ہو گی لیکن اگلے دن آپ بھی اسی جیل میں ہوں گے، اگر ہم آپس کی لڑائی میں لگے رہے تو ملک آگے کیسے بڑھے گا؟ جب عمران خان وزیراعظم تھے تو میری ان سے صرف اتنی مخالفت تھی کہ جس سسٹم کیلئے میرے خاندان نے قربانیاں دی ہیں وہ چلتا رہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان کے جمہوری نظام کو چلانے کیلئے بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے میثاقِ جمہوریت کیا، 18ویں ترمیم کی اور این ایف سی ایوارڈ منظور کرایا، پہلے چیف الیکشن کمشنر حکومت کی مرضی سے ہوتا تھا، ہماری ترمیم کے بعد اپوزیشن لیڈر اور وزیراعظم کی مشاورت سے تعینات ہوتا ہے، عبوری حکومت میں اپوزیشن اور وزیر اعظم کی مشاورت اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اپوزیشن کو دینے سمیت یہ تمام چیزیں ہم نے کروائیں۔
سابق وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم نے سمجھا اگر اس ملک نے چلنا ہے تو حکومت اور اپوزیشن کو مل کر چلنا پڑے گا، اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کسی نے میرے والد یا والدہ کو جیل میں ڈالا یا آپ کے راہنما چند ماہ سے جیل میں ہیں، آپ ان کا کیس ہر سطح پر لڑیں لیکن یہاں آ کر عوام کی خدمت کریں، ہمارا بھی حکومت سے اختلافِ رائے ہوتا ہے، الیکشن مہنگائی کے نکتے پر لڑا، جہاں مناسب سمجھا تنقید بھی کی۔
انہوں نے کہا کہ وقت آ گیا ہے حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے، ہم نے دیکھنا ہے کہ حکومت کی کارکردگی اس بنیادی معاملہ پر کیا ہے، وزیراعظم اور ان کی معاشی ٹیم کی کارکردگی کے بارے میں اس ایوان کو بتانا چاہوں گا کہ 8 ماہ پہلے مہنگائی کی شرح کیا تھی، حکومت نے بجٹ میں 12 فیصد تک لانے کا ہدف رکھا تھا، ابھی سال بھی پورا نہیں ہوا اور مہنگائی کی شرح 9 اعشاریہ 6 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ جہاں ہم حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے آ رہے ہیں وہیں اس بات پر تعریف بھی کرنی چاہیے کہ مہنگائی کم ہو رہی ہے اور مزید کمی کیلئے تجاویز دینی چاہئیں، کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے حکومت کی آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کو نقصان پہنچے، ہم نے 2013 سے 2018 تک انھی لوگوں کے ساتھ مل کر اتفاق کیا جنہوں نے میرے والد کو ساڑھے 11 سالوں تک جیل میں رکھا، کہ ہم ان لوگوں کے ساتھ مذاکرات کر کے ایسی متفقہ دستاویز لائے جس سے ہم نے صوبوں، پارلیمنٹ اور عدالت کو مضبوط کیا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا اس اتفاقِ رائے سے عوام کو فائدہ پہنچ رہا ہے مگر اس اتفاقِ رائے کے خلاف ایک مخصوص لابی موجود ہے، وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ یہ اتفاقِ رائے جاری رہے، شروع دن سے اس اتفاقِ رائے کے خلاف سازش جاری ہے، کبھی افتخار چوہدری تو کبھی انٹیلیجنس اداروں کے ذریعہ سیاسی جماعت کو فائدہ دے کر ہمارے سیاسی نظام کو اس مقام پر پہنچایا دیا گیا کہ پہلے ہم اختلافات کے باوجود آپس میں بات کرتے تھے لیکن اب ہاتھ ملانے کیلئے بھی تیار نہیں ہوتے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں سپیکر قومی اسمبلی سے کہتا ہوں کہ وہ اس ایوان کو متحرک کریں اور پھر ہم اس ملک کو متحرک کر سکتے ہیں، اپنی سیاست یا اپنے معاملات اور کیسز ہم دیکھ لیں گے، جب تک یہ ایوان فنکشنل نہیں ہو گا تب تک یہ ملک فنکشنل نہیں ہو گا، ایک قابلِ احترام سینئر بلوچ سیاستدان نے ایوان سے استعفیٰ دیا، مجھے بہت افسوس ہوا، میں ان کے استعفیٰ کی خبر سے مایوس ہوا، میں ان سے کہوں گا کہ اسمبلی نہ چھوڑیں، ذمہ داری اپنائیں، جو لوگ نہیں چاہتے ہیں کہ آپ اسمبلی میں ہوں وہ خوش ہوں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یاد دلاتا ہوں کہ جب پی ڈی ایم کی حکومت تھی، میں کہتا رہا کہ اسمبلی نہ چھوڑیں، یہاں ضد اور جوش و جذبہ تھا، اسمبلی چھوڑ دی گئی، اب وہ خود بھگت رہے ہیں، نہ صرف وہ بلکہ ملک بھی بھگت رہا ہے، ایسی ہائی پاور کمیٹی بنائیں جس میں تمام جماعتوں کا مؤقف سنا جائے، وہ جماعت بھی شامل پو جو حکومت کو پسند نہیں،