اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ عدالت پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہے، مخصوص نشستوں سے متعلق عدالتی فیصلے میں سقم ہیں اور بار بار آئین کو توڑا گیا ہے، اس فیصلے سے نظریہِ ضرورت و نظریہِ سہولت اور مکمل انصاف کا نظریہ پھوٹتا ہے جس کی ہمیں کوئی منطق نظر نہیں آتی، عدلیہ کبھی کسی مارشل لاء کے سامنے کھڑی نہیں ہوئی لیکن پارلیمنٹ کی آئینی ترمیم پر شور برپا ہے۔
پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر عرفان الحق صدیقی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی ایک جامع عمل ہے اور پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون پر عدالت فیصلہ کرتی ہے، عدالتی فیصلے میں کسی سقم یا غلطی کو کون درست کرے گا؟ میرے سوال پر سیاسی تفرقہ بازی کے بغیر غور ہونا چاہیے۔
سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق عدالتی فیصلے سے کئی سوالات نے جنم لیا ہے اور عدالتی فیصلے سے معاملہ حل ہونے کی بجائے پیچیدہ ہو گیا ہے جس کو سلجھانا مشکل ہو گیا ہے، ہم عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں لیکن آئین کی بالادستی پر کسی صورت سمجھوتا نہیں کر سکتے، آج یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ کیا عدالت کا کوئی بینچ بھی غلطی کر سکتا ہے یا نہیں کر سکتا؟
انہوں نے کہا ہے کہ کیا یہ عدالتوں کے ججز ہم پارلیمنٹیرینز کی طرح انسانوں میں سے ہیں اور ان سے بھی غلطی ہو سکتی ہے یا یہ نعوذ باللّٰه پیغمبروں کا قبیلہ ہے جس سے غلطی کا ارتکاب نہیں ہو سکتا؟ ہم سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے میں ایک سے زائد بار غلطی کا ارتکاب ہوا ہے اور بار بار آئین کو توڑا گیا ہے اور بار بار 2017 کے الیکشن ایکٹ کو توڑا گیا ہے، ہم کوئی غلطی کرتے ہیں تو عدلیہ اس کی اصلاح کر دیتی ہے لیکن جب عدلیہ کسی غلطی کی مرتکب ہو جائے اور آئین سے براہِ راست متصادم کوئی فیصلہ ہو جائے تو یہ فیصلہ ہو جانا چاہیے کہ اسے کون ٹھیک کرے گا؟
راہنما مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کی درخواست تھی لیکن فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں آ گیا، سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی درخواست کو پشاور ہائیکورٹ نے پانچ صفر سے مسترد کیا کیونکہ آئین کے مطابق آزاد رکن 3 دن کے اندر کسی جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں اور پھر اس کے بعد آئین پانچ سال تک اس پنجرے کو بند رکھتا ہے لیکن آپ آئینی شرط توڑ کر پنجرہ کھول دیتے ہیں اور ان پنچھیوں سے کہتے ہیں کہ اڑ جاؤ اور اڑ کر کہیں نہیں جانا بلکہ ایک خاص آشیانے کی طرف جانا ہے، انہیں پی ٹی آئی میں جانے کا کہتے ہیں، یہ کیا ہے؟ یہ کون سا آئین اور کون سا ضابطہ ہے؟
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ سے متفقہ فیصلے کے بعد سپریم کورٹ جاتے ہیں تو عدالتِ عظمٰی بھی کہتی ہے کہ سنی اتحاد کونسل کو یہ نشستیں نہیں دی جا سکتیں لیکن یہاں سے وہ نظریہِ ضرورت، نظریہِ سہولت اور مکمل انصاف کا نظریہ پھوٹتا ہے جس کی ہمیں کوئی منطق نظر نہیں آتی ہے اور اس میں کہا جاتا ہے کہ مکمل انصاف کے تحت ہم یہ نشستیں اس جماعت کو دے رہے ہیں جو نہ سپیکر کے پاس گئی اور نہ الیکشن کمیشن کے پاس گئی کہ ہمیں یہ نشستیں چاہئیں، وہ جماعت نہ ہائیکورٹ کے پاس گئی اور نہ ہی سپریم کورٹ کے پاس گئی۔
پارلیمنٹ میں ایوانِ بالا کے رکن عرفان الحق صدیقی کا کہنا تھا کہ آج تک سنی اتحاد کونسل میں جانے والے پی ٹی آئی کے اراکین میں سے کسی ایک نے بھی کسی فورم پر نہیں کہا کہ ہم اپنی پارٹی بدلنا چاہتے ہیں، میں مسلم لیگ(ن) سے تعلق رکھتا ہوں تو آپ مجھے کس قانون کے تحت کہہ سکتے ہیں کہ میں مسلم لیگ(ن) چھوڑ کر پیپلز پارٹی یا ایم کیو ایم میں چلا جاؤں؟ اس طرح کے کئی عجوبے اس فیصلے میں بھرے پڑے ہیں جو آئین سے براہِ راست متصادم ہیں، ماضی گواہ ہے کہ ماضی میں چار مارشل لاز لگے اور عدلیہ کبھی کسی بھی مارشل لاء کے سامنے کھڑی نہیں ہوئی لیکن پارلیمنٹ کی آئینی ترمیم پر شور برپا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے راہنما نے کہا کہ اگر ایک آمر جا کر کہتا ہے کہ میری توثیق کرو تو اس کی توثیق بھی کی جاتی ہے اور ساتھ کہتے ہیں کہ جتنی چاہے آئین میں ترمیم کر لو مگر آج پارلیمنٹ آئینی ترمیم کرنا چاہتی ہے تو اس پر شور برپا ہے، یہ سب کیا ہے؟ ہم جب آئین کی پاسداری نہ کریں تو آپ ہماری گرفت کر لیتے ہیں لیکن آپ جب آئین کی پاسداری نہ کریں تو بتائیں ہم کہاں جائیں؟ جب پارلیمنٹ کے سامنے 2 راستے ہوں کہ آئین کی پیروی کریں یا غیرآئینی عدالتی فیصلے کی پیروی کریں تو ہم کیا کریں، ہمارے لیے مسئلہ کھڑا کردیا ہے کہ ہم کدھر جائیں۔
سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ آرٹیکل239 کے تحت پارلیمنٹ کے آئین سازی کے اختیار پر کوئی حد نہیں لگائی جاسکتی لیکن عدالت کی جانب سے حدود سے تجاوز ہونے کی وجہ سے آئین کی کئی شقیں مفلوج ہو گئی ہیں، ہم اپنی حدود کے اندر رہنا چاہتے ہیں، ہمیں اپنی حدود کے اندر رہنے دیں، ایک غیرآئینی یا آئین سے متصادم فیصلہ دینے کے بعد ہماری پیٹھ پر چابک نہ ماریں کہ آپ یہ فیصلہ کیوں نہیں مانتے، ہم نے آئین کے تحفظ کی قسم کھائی ہوئی ہے اور ہم آئین بنانے والے لوگ ہیں، آپ آئین نہیں بناتے ہم بناتے ہیں اور ہم آپ کا احترام کرتے ہیں۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے اڈیالہ جیل میں قید سابق چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ عمران خان کا بیان آیا ہے ہم جسٹس منصور علی شاہ کو سپورٹ کرتے ہیں، مجھے نہیں معلوم انہیں اس طرح کے بیانات دینے چاہئیں یا نہیں، یہ کہنا کہ فلاں کی آمریت بھی اس جمہوریت سے اچھی تھی، کونسی جمہوریت کی بات کرتے ہیں؟ آج آپ پر بنے فوجداری کیسز کے سوا کون سے سیاسی قیدی ہیں،؟ آپ کے دور میں کونسا سا ایسا شخص یا نامور سیاستدان تھا جو جیل سے باہر تھا؟ میں جب 2021 میں سینیٹ میں آیا تو پتہ چلا کہ ایک شخص ایک کمرے میں بیٹھ کر پارلیمنٹ کو چلاتا ہے، آپ کا دور تو ایسا تھا اور آپ ہمیں درس دے رہے ہیں۔
پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر عرفان الحق صدیقی کا کہنا تھا کہ منصور علی شاہ ایک معزز جج ہیں، ان کا بہت اچھا ٹریک ریکارڈ ہے اور ہم سب ان کی تکریم کرتے ہیں اور ہم سب چاہتے ہیں کہ جب ان کو موقع ملے تو وہ شاندار روایات قائم کریں لیکن عمران خان جیسا شخص اپنی پسندیدگی کا داغ منصور علی شاہ کے ماتھے پر لگا کر مںصور علی شاہ کا مستقبل خراب کر رہا ہے، آپ کیوں منصور علی شاہ کو فیض حمید بنانا چاہتے ہیں؟ اسے فیض حمید کی سطح پر نہ گھسیٹیں۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے سابق وزیراعظم عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے مزید کہا کہ آپ نے فیض حمید کو چیف بنانا تھا وہ بنا یا نہیں بنا لیکن اب آپ منصور علی شاہ کو چیف بنانا چاہتے ہیں، آپ کے کہنے سے نہیں بنیں گے، وہ اپنے میرٹ اور استحقاق پر بنیں گے لہٰذا اس طرح کی باتیں نہ کریں۔