spot_img

Columns

Columns

News

تورطت المملكة العربية السعودية في مؤامرة للإطاحة بحكومة رئيس الوزراء السابق عمران خان، كما يزعم أحد المقربين من عمران خان

لقد أطاحت المملكة العربية السعودية بحكومة عمران خان، وكانت المملكة العربية السعودية والولايات المتحدة هما الدولتان اللتان اكتملت بدعمهما عملية تغيير النظام. كما أن الدعم الاقتصادي الذي تقدمه المملكة العربية السعودية لباكستان هو أيضًا جزء من نفس التخطيط، شير أفضل مروات۔

Pakistan grants 34 firms licenses to develop electric vehicles for its domestic market

Pakistan's Engineering Development Board has granted 34 licenses for electric vehicle manufacturing under its 2020-2025 policy, aiming to equip petrol stations with EV chargers and leverage global climate funds to promote clean transportation.

پاک فوج نے جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف انکوائری کا آغاز کر دیا

پاک فوج نے سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف نجی ہاوسنگ سوسائٹی کے مالک کی درخواست پر انکوائری کا آغاز کر دیا ہے، جنرل (ر) فیض حمید پر الزام ہے کہ انہوں نے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے خلاف دورانِ ملازمت اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا تھا۔

عمران خان کی حکومت سعودی عرب نے گِرائی تھی، شیر افضل مروت

عمران خان کی حکومت سعودی عرب نے گِرائی تھی، سعودی عرب اور امریکہ دو ممالک تھے جن کے تعاون سے رجیم چینج آپریشن مکمل ہوا، سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کیلئے معاشی تعاون بھی اسی پلاننگ کا حصہ ہے۔راہنما تحریکِ انصاف شیر افضل مروت
Commentaryنواز شریف اور عمران خان خوش بختی کا تصادم
spot_img

نواز شریف اور عمران خان خوش بختی کا تصادم

Hammad Hassan
Hammad Hassan
Hammad Hassan has been a columnist for over twenty years, and currently writes for Jang.
spot_img

تقریبا ایک صدی پیچھے چلے جاتے ہیں نواز شریف کے والد میاں محمد شریف 1919ء میں مقبوضہ کشمیر کے قصبے اننت ناگ کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ تلاش معاش کے سلسلے میں ان کا خاندان امرتسر چلا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد میاں محمد شریف رزق کی تلاش میں لاہور آ گئے۔ اُنہوں نے ایک چھوٹی سی خراد مشین خریدی اور ایک چھوٹے سے گیراج میں کام کرنے لگے۔ تاہم ترقی کی رفتار وقت کی رفتار سے بہت کم تھی سو محنت اور غربت ساتھ ساتھ چلتے رہے۔

یہی مسلسل محنت اور غربت انہیں 25دسمبر 1949ء کا ایک خوش بخت دن دکھا دیتی ہے۔ جب ان کے گھر ان کا پہلا بیٹا محمد نواز شریف اپنے خاندان کے لئے خوش بختیوں کا ایک سلسلہ لےکر پیدا ہوتا ہے اور یہیں سے ان کے دن پھرنے لگتے ہیں۔ پھر کہاں کی چھوٹی سی خراد مشین اور کہاں کی غربت!
پھر تو سلسلہ اتفاق فونڈری سے پے درپے بادشاہتوں اور عالمی شہرت تک پھیل جاتا ہے۔
لیکن ایک اور کہانی بھی ہے۔ اس سے ملتی جلتی اور اس سے متضاد بھی اکرام اللہ خان نیازی 1925ء میں میانوالی کے ایک ممتاز فزیشن ڈاکٹر عظیم نیازی کے گھر سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوئے۔ اعلٰی تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرکے بحیثیت سول انجینئر کیرئیر کا آغاز کیا۔

25 نومبر 1952ء کو ان کے گھر ان کا اکلوتا بیٹا عمران خان پیدا ہوتا ہے۔ تو مزید دولت اور شہرت اس گمنام انجینئر کے گھر کا رُخ کرنے لگتی ہے اور یہاں سے نصیبوں کے عروج اور تصادم کی وہ کہانی شروع ہو جاتی ہے جو آگے چل کر پورے ملک کی تقدیر پر اثر انداز ہوتی رہی۔
ساٹھ کے عشرے کے آخر میں ان دونوں “شہزادوں” (نواز شریف اور عمران خان) کی ملاقات ہوتی ہے۔ کیونکہ دونوں لاہور کے ایلیٹ کلاس خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں کرکٹ کے شیدائی ہیں اور لاہور جم خانہ میں کھیلنے آتے ہیں۔ دونوں کی خواہش ہے کہ پاکستانی ٹیم کی طرف سے کھیلیں لیکن 70 کے عشرے میں عمران کا نصیب بازی لے جاتا ہے اور وہ پاکستانی ٹیم کا حصہ بن جاتے ہیں اور نواز شریف بظاہر ناکام ہوجاتے ہیں لیکن کچھ عرصے بعد ان کی فطری خوش بختی شہرت اور طاقت کے ایک اور سفر (سیاست اور اقتدار) پر انہیں ڈال دیتی ہے۔

نواز شریف 1983 میں پنجاب کے وزیر خزانہ بن کر سیاسی سفر کا آغاز کرتے ہیں اور صرف دو سال بعد 1985ء میں مخدوم حسن محمود اور ملک اللہ یار جیسے ہیوی و یٹس کو پچھاڑ کر پنجاب کے وزیرِاعلٰی بن جاتے ہیں۔

انکی خوش نصیبی کا دائرہ مبالغہ آمیز حد تک پھیلتا جاتا ہے۔ تین سال بعد 1988 میں دوبارہ وزیرِ اعلٰی بن کر پیپلزپارٹی اور بے نظیر بھٹو جیسی لیڈر کے مقابل آجاتے ہیں تو ان کی خوش نصیبی بے نظیر بھٹو کی حکومت کو ناکامی سے دوچار کرکے انہیں بے نظیر سے زیادہ مقبولیت عطا کر دیتی ہے اور صرف دو سال بعد وہ پاکستان کے وزیرِاعظم بن جاتے ہیں اس دوران جو بھی شخص ان کا راستہ روکنے کی کوشش کرتا ہے تو نواز شریف کی خوش بختی اسے ہڑپ کر جاتی ہے۔

آصف نواز جنجوعہ۔ جہانگیر کرامت۔ غلام اسحاق خان۔ جسٹس سجاد علی شاہ۔ فاروق لغاری حتٰی کہ 12اکتوبر اور پرویز مشرف کو بھی اسی خوش نصیبی نے آخر پچھاڑ کر رکھ دیا اور وہ تیسری بار بھی وزیرِ اعظم بن گئے۔ دوسری جانب عمران خان کرکٹ کی کامیابیاں اور شہرت کے منازل طے کرتے حتی کہ 1992 میں کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت کر کچھ عرصے بعد سیاست کے میدان تک پہنچتے ہیں تو ان کا سامنا اس میدان کے سب سے خوش نصیب شہسوار نواز شریف سے ہوتا ہے اور یہاں سے نصیبیوں کے تصادم کی ایک اور کہانی جنم لیتی ہے
اسی لئے جب 2013ء میں الیکشن کا میدان سجتا ہے تو قسمت کے دونوں دھنی اپنے سامنے سروں کا سمندر دیکھتے ہیں عمران خان کو ان کے پیروکار اور میڈیا کا ایک بڑا حصہ متوقع وزیرِ اعظم کے روپ میں بھی پیش کرنے لگتا ہے کہ الیکشن کے گرما گرم اور مصروف ترین دنوں میں اچانک عمران خان ایک جلسے کے دوران سٹیج سے گرتے ہیں اور شدید زخمی ہو جاتے ہیں۔
ان کا سارا انتخابی کمپین کا شیڈول اور سیاسی سرگرمیاں مکمل طور پر مفقود ہو کر ان کی زندگی کے سوال کی طرف مڑ جاتے ہیں۔

ان معاملات میں دلچسپی لینے اور غور وفکر کرنے والے لوگ الیکشن کے نتائج الیکشن سے پہلے ہی سمجھنا شروع ہو گئے تھے اور پھر 11مئی 2013ء کی رات نواز شریف کی خوش بختی نے عمران خان کو کرشماتی شخصیت کے باوجود سیاسی طور پر ہڑپ کر لیا۔ تاہم عمران کی توانا خوش نصیبی نے انہیں جسمانی اور سیاسی طور پر بچا لیا لیکن جب نواز شریف وزیرِ اعظم بنتے ہیں تو عمران خان ان پر یلغار جاری رکھتے ہیں۔ لیکن ہوتا کیا ہے؟

مرکز اور پنجاب میں نواز شریف کی حکومتیں مضبوط بھی ر ہیں اور نسبتًا کامیاب بھی۔ لیکن نواز شریف کو پریشان کرنے کے بجائے اُلٹا عمران خان کی پریشانیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ جیسے ریحام خان کا معاملہ۔ خیبر پختون خواہ میں تحریکِ انصاف حکومت کی ناکامی شدید سیاسی تنہائی اور پارٹی کے اندر شدید اختلافات جو اس وقت اپنے عروج پر پہنچ چکے ہیں۔
نواز شریف کی دشمنی عمران خان کے لئے ہمیشہ خسارے کا سودا رہی لیکن اس کی رفاقت ہمیشہ عمران خان کے گراف کو اُوپر کی طرف لے جاتی ہے مثُلًاکرکٹ کے علاوہ صرف دو چیزوں نے عمران خان کو شہرت اور طاقت عطا کی ایک شوکت خانم ہسپتال اور دوسرا 2013 میں پہلی بار خیبر پختون خواہ میں تحریکِ انصاف کی حکومت کا قیام حیرت انگیز طور پر ان دونوں معاملات میں میاں نواز شریف نے تعاون کیا (حالانکہ 20 13 الیکشن کے بعد مولانا فضل الرحمن کی شدید خواہش تھی کہ خیبر پختونخواہ میں مسلم لیگ اور جمیعتالعلماء اسلام مل کر مخلوط حکومت بنائیں)۔ 1992ء میں عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال کا منصوبہ بنایا تو زمین نواز شریف نے فراہم کی جبکہ خیبر پختون خواہ کی حکومت نواز شریف نے اس وقت عمران خان کی جھولی میں ڈال دی جب نواز شریف 2013ء میں بھاری اکثریت سے جیتنے کے بعد عمران کی بیمار پرسی کے لئے ہسپتال گئے۔
دیکھا گیا ہے کہ خوش بختی کے حوالے سے نوازشریف ہمیشہ عمران خان کو بھاری پڑتا رہا ہے جس کا کچھ نا کچھ روحانی پس منظر بھی ہے جس کا ذکر پھر کھبی! فی الحال موجودہ حالات میں نصیبیوں کے تصادم اور نتائج پر بات کر تے ہیں
وزارت عظمی سے معزولی کے بعد نواز شریف شدید مشکلات کا شکار ہوا تو عمران خان کا عروج بھی شروع ہوا لیکن اصل سوال یہ ہے کہ فائدے میں کون رہا?
ایک سیاسی لیڈر کی سیاسی زندگی کو عوامی مقبولیت اور ناراضگی کے پیمانوں پر پرکھا جاتا ہے اور دونوں کے حوالے سے یہ بات سمجھنا اور نتائج اخذ کرنا اس وقت کونسا مشکل کام ہے
قابل غور بات یہ بھی ہے کہ جن روایتی قوتوں کو اس وقت دن بدن جن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیا پہلے متعدد سیاسی رہنماؤں سے تصادم کی صورت میں کھبی انہیں ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا جو نواز شریف کے معاملے میں ہو رہا ہے۔
کسی جذباتی ذھن سے سوچنے کی بجائے اگر ھم اس حوالے سے ٹریک ریکارڈ کو سامنے رکھ کر تجزیہ کریں تو آسانی کے ساتھ سمجھ آ جاتی ھے کہ نواز شریف کے معاملے میں تسلسل کے ساتھ ہمیشہ یہی ہوتا رہا ہے
مثلا قسمت کا دھنی غلام اسحاق خان اس سے ٹکرایا تو طویل زندگی میں وہ پہلی بار طاقت اور اقتدار کے ایوانوں سے نکلا اور پشاور اپنی موت تک گوشہ نشین رہا جبکہ تصادم کے بعد نواز شریف کئی بار اقتدار میں آیا اور آج بھی سب سے مقبول ھے۔
پرویز مشرف کہاں اور کس حال میں ہیں?
کیا چودھری نثار 1985 کے بعد زندگی میں پہلی بار الیکشن نہیں ھارا?
یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد تصوف کے کسی معاملے کو سمجھنے کا دعوی بھی نہیں اور خود کو کوئی روحانی علوم کا ماھر ثابت کرنا بھی نہیں کیونکہ نہ تقوی کے اس عظیم معیار پر ہیں اور نہ ھی علم کے۔
البتہ مشاھدے میں آئے حقائق یہی تھے اور انہی حقائق کو ھی سامنے رکھا

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Read more

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.
error: