spot_img

Columns

Columns

News

تورطت المملكة العربية السعودية في مؤامرة للإطاحة بحكومة رئيس الوزراء السابق عمران خان، كما يزعم أحد المقربين من عمران خان

لقد أطاحت المملكة العربية السعودية بحكومة عمران خان، وكانت المملكة العربية السعودية والولايات المتحدة هما الدولتان اللتان اكتملت بدعمهما عملية تغيير النظام. كما أن الدعم الاقتصادي الذي تقدمه المملكة العربية السعودية لباكستان هو أيضًا جزء من نفس التخطيط، شير أفضل مروات۔

Pakistan grants 34 firms licenses to develop electric vehicles for its domestic market

Pakistan's Engineering Development Board has granted 34 licenses for electric vehicle manufacturing under its 2020-2025 policy, aiming to equip petrol stations with EV chargers and leverage global climate funds to promote clean transportation.

پاک فوج نے جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف انکوائری کا آغاز کر دیا

پاک فوج نے سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف نجی ہاوسنگ سوسائٹی کے مالک کی درخواست پر انکوائری کا آغاز کر دیا ہے، جنرل (ر) فیض حمید پر الزام ہے کہ انہوں نے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے خلاف دورانِ ملازمت اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا تھا۔

عمران خان کی حکومت سعودی عرب نے گِرائی تھی، شیر افضل مروت

عمران خان کی حکومت سعودی عرب نے گِرائی تھی، سعودی عرب اور امریکہ دو ممالک تھے جن کے تعاون سے رجیم چینج آپریشن مکمل ہوا، سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کیلئے معاشی تعاون بھی اسی پلاننگ کا حصہ ہے۔راہنما تحریکِ انصاف شیر افضل مروت
Commentaryتکبر
spot_img

تکبر

Prime Minister Khan's tenure has been engulfed with pride, contempt and sheer arrogance, writes Hammad Hassan

Hammad Hassan
Hammad Hassan
Hammad Hassan has been a columnist for over twenty years, and currently writes for Jang.
spot_img

اونٹنی شہر کے بالائی سمت سے نمودار ہوئی تو ہزاروں کا لشکر عقب میں تھا لیکن اس کے باوجود بھی تکبر کی بجائے عجز اپنی انتہا کو چھو رہا تھا۔

!لیکن ٹھہریے

پہلے موجودہ منظر نامے میں ابھرنے والے اس خوفناک تکبر پر تو نگاہ کر لیجئے۔ وہ ملک کے منتخب وزیراعظم اور اپنے طاقتور سیاسی حریف نواز شریف کو بغیر کسی ثبوت کے گلی کوچوں میں سر عام چور ڈاکو کہتا رہتا لیکن وقت نے کروٹ بدلا تو خود اپنے چھپائے گئے 53 اکاونٹس اور کروڑوں اربوں کے گھپلوں کے ساتھ دکھائی دیے۔

منتخب وزیراعظم کو غددار اور مودی کا یار بھی کہتا رہا لیکن پھر خود اسی مودی کے فون کال کا انتظار کرتے کرتے ایک تماشا تو بنا ہی گیا ساتھ ساتھ کشمیر سے بھی ھاتھ دھو بیٹھا اور غدداری کی واضح اور عملی تشریح بھی کر گیا۔ کنٹینر پر کھڑے ہو کر آٹھ روپے فی یونٹ والا بل جلاتا رہا لیکن اقتدار میں آکر اسی بجلی کا یونٹ 23 روپے سے بھی اوپر لے جا کر بیچنے اور بد دعائیں لینے لگا۔

گرین پاسپورٹ کو عزت دینے کا دعویدار تھا لیکن ملک کو اس نہج پر لےکر گیا کہ سعودی عرب جیسے ملک نے ملائیشیا کی طرف پرواز کرتے ہوئے خود اس کے اپنے جہاز کا رخ تک موڑ دیا۔ مختصر کابینہ رکھنے کے اعلانات کرتا رہا لیکن تاریخ کی وہ سب سے بڑی کابینہ بنائی کہ اپنے وزراء کو ملنے والے محکموں تک کا بھی پتہ نہ تھا۔ دو کی بجائے ایک پاکستان بنانے کے دعوے کرتا رہا لیکن پھر خود پرویز مشرف سے عاصم باجوہ اور علیمہ خان سے زلفی بخاری تک “دوسرے پاکستان” کی بدنام زمانہ تخلیق اور بچاو میں لگا رہا۔

پرائم منسٹر ہاوس اور گورنر ہاوسز کو یونیورسٹیوں میں تبدیل کرنا سیاسی نعرہ بنایا لیکن وقت آیا تو ان ہاوسز کو بد دیانت اور کرپٹ اشرافیہ اور پراسرار لوگوں کی اماجگاہیں بنا کر چھوڑا۔ باہر سے لوٹا ہوا پیسہ لا کر ملک سنوارنے کے وعدے کرتا رہا لیکن پاپا جونز سے براڈ شیٹ اور ملک ریاض سے ابراج گروپ تک کا ” دوست اور محافظ ” بنتا رہا۔ خود کو بہترین ٹیم بنانے کا ماہر کہتا رہا لیکن اس ٹیم سے اسد عمر حفیظ شیخ اور شوکت ترین جیسے نابغے برآمد ہوتے اور معیشت کو تباہی و بربادی سے دوچار کرتے رھے۔

قوم کو خود داری اور خود مختاری کا سبق دیتا رہا لیکن پھر اسی قوم کو سٹیٹ بینک سمیت آئی ایم ایف کی کھرلی پر باندھ کر چلتا بنا۔ ایماندار ساتھیوں کے انتخاب کے دعوے کرتا رہا لیکن بزدار شاہ فرمان جہانگیر ترین خسرو بختیار فیصل واوڈا عامر کیانی امین گنڈاپور زلفی بخاری ظفر مرزا علی زیدی اور رزاق داوود جیسے “بہترین اور ایماندار ساتھیوں” کا انتخاب کرتا رہا۔

پینسٹھ روپے لیٹر پٹرول بیچنے والوں کو ڈکیت کہتا لیکن خود وہی پٹرول ڈیڑھ سو روپے کے قریب بیچنے لگا۔ پاکستان کو سیاحوں کی جنت بنانےکا نعرہ لگاتا رہتا لیکن ایک چھوٹے سے شہر مری کو سنبھالنے کی بجائے دو درجن لاشوں کو وہاں سے ان کے گھروں میں بھیجا۔

!مزید آگے بڑھتے ہیں

جو انتہائی قابل اعتراض لہجہ اور غیر مہذب زبان نواز شریف کی ذات اور خاندان کے بارے اپنا چکا تھا حتی کہ اس کی آخری سانسیں لیتی بیوی کو بھی نہیں چھوڑا اب وہی لہجہ اور زبان اسی عمران خان کے بارے گلی کوچوں میں پھیل چکا اور وہی الفاظ پوری قوم اس کے بارے میں استعمال کر رہی ہے۔ جس نواز شریف کو جیل میں ڈالنے اور اے سی اتروانے کا اعلان خدائی لہجے میں کر رہا تھا وہی نواز شریف دن بدن اس کے لئے ایک ڈراونا خواب بنتا جا رہا ہے۔

جس آصف زرداری کو طعنے دیتا تھا اسی آصف زرداری کی پارٹی (تحفظات کے باوجود بھی) ایک صوبے میں عمران خان حکومت سے کہیں بہتر پرفارم کر رہی ھے۔ جس مولانا فضل الرحمن کو صبح و شام ڈیزل اور بکاو کہہ کر تمسخر اڑایا کرتا تھا اسی فضل الرحمن نے خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت ہوتے ہوئے بھی بلدیاتی انتخابات میں اسے پچھاڑ کر رکھ دیا۔

جس شہباز شریف کے انتظامی مہارت کو خراج پیش کرنے کی بجائے بربادی اور جنگلہ بس کے طنزیہ جملے بولتا تھا اب اسی شہباز شریف کی نسبت سے اس کے اپنے مقرر کردہ وزیر اعلی عثمان بزدار کا تعارف کرانا پڑتا ہے۔ محمود خان اچکزئی کے لباس کی نقل اتارتا رہا لیکن پھر اپنے قمیض کی دو موریوں کے ڈرامے نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ بزرگ اور عمر رسیدہ قائم علی شاہ کی یاداشت پر انہیں طنز اور تضحیک کا نشانہ بناتا رہا لیکن پھر خود کبھی حضرت عیسی علیہ السلام کا ذکر تاریخ سے نکالنے لگا تو کبھی جرمنی اور جاپان کے بارڈر ملانے لگا۔ جس پرویز الہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتا رہتا قدرت نے اسی پرویز الہی کا محتاج بنا دیا کیونکہ عمران خان کی حکومت اسی ق لیگ کے چند ووٹوں کے سہارے کھڑی ہے۔

جس اسحاق ڈار کی معاشی خدمات اور کامیابیوں کے باوجود بھی داد دینے کی بجائے نہ صرف اسحاق ڈار بلکہ اس کے مرحوم والد تک کا مذاق اڑاتا اور جملے کستا رہتا۔ وہی اسحاق ڈار اس کے وزراء خزانہ اسد عمر حفیظ شیخ اور شوکت ترین کی “پرفارمنس ” کے سبب قوم کےلئے ایک معاشی مسیحا کا روپ دھار چکا ہے۔

یہ تمام سلسلے کسی من گھڑت کہانی سے نہیں پھوٹتے بلکہ ان حقائق سے آشکار ہیں جو صبح و شام ہمارے سامنے عملی شکل میں موجود ہیں اور جو ایک تسلسل کے ساتھ ترتیب پائے۔

یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہوا؟

تو عرض ہے کہ یہ سب کچھ تکبر توہین اور غرور کا شاخسانہ ہے۔ کیونکہ عمران خان کی فطرت کو عاجزی اور انکساری چھو کر بھی نہیں گزری۔ اس حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ھے کہ تکبر خود پسندی اور دوسروں کی توہین خطرناک حد تک خان صاحب کے مزاج کا حصہ ہیں اور ان کی ساری زندگی انہی خصلتوں کے گرد گھومتی دکھائی دیتی ہے۔ عمران خان کا یہی رویہ بحیثیت ایک کھلاڑی کھیل کے میدان میں بھی تھا اور بحیثیت ایک سیاستدان سیاست کے ایوان میں بھی ہے۔ کھیل کے میدان میں ساتھی کھلاڑیوں حتی کہ جاوید میانداد جیسے عظیم اور سینیئر کھلاڑی کو بھی نہیں بخشا۔ جبکہ سیاست میں بھی ہر مخالف اس کی بد زبانی گالم گلوچ اور بہتان طرازی کا نشانہ بنا۔

کیا کوئی ایک بھی گواہی زندہ ہے؟ جو نرمی محبت معافی احترام صلہ رحمی یا احسان مندی کے حوالے سے عمران خان سے متعلق کوئی ایک بھی شہادت یا مثال پیش کر سکے۔

ایسا خوفناک تکبر؟ اتنا دل آزار رویہ؟

لیکن عمران خان کو کون سمجھائے کہ اللہ تعالی کو سب سے زیادہ نفرت انسانی تکبر سے ہے کیونکہ تکبر کو اللہ تعالی نے صرف اپنی ذات تک مختص کر رکھا ہے اور اسے اپنا لباس قراردیا ہے۔ اور حکم ملا حظہ ہو کہ اس رویے (تکبر) سے کتنی سختی کے ساتھ پوری انسانیت حتی کہ انبیاء کرام تک کو بھی روکا گیا ہے۔

سو، اگر خان صاحب آمادہ ہوں اور خلاف معمول سمجھنے کی کوشش کریں تو تکبر سے دوری اور عجز کا رویہ اختیار کرنے کا اندازہ اسی تابندہ مثال سے لگا سکتے ہیں کہ جب فخر انسانیت (حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم) فتح مکہ کے وقت ہزاروں کے لشکر کے ساتھ دنیا کے طاقتور فاتح کی حیثیت سے اسی مکے میں داخل ہو رہے تھے جس نے ان پر ظلم کی انتہا کر دی تھی تو کپکپاتا ہوا مکہ عربوں کے روایتی مزاج کے مطابق انتقام کی توقع لئے ہوئے تھا۔

لیکن۔۔۔ یہ کیا ہوا؟
بلال حبشی حکم کے مطابق بلند آواز سے دشمنوں کی بستی میں عام معافی اور تحفظ کا پیغام بانٹتا دکھائی دیا۔

راوی بیان کرتا ھے کہ ہزاروں سرفروش پیروکاروں اور سلطنتیں اڑاتے عسکری لشکر کی قیادت کرتے ہوئے عظمت انسانیت سفید اونٹنی پر سوار مکے کے بالائی سمت سے نمودار ہوئے تو اس تاریخی دن اور لافانی فتح کے باوجود بھی عجز اور نرمی اس کمال درجے پر تھے کہ اونٹنی پر یوں جھکے ہوئے بیٹھے نظر آئے کہ داڑھی مبارک کے بال اونٹنی کی کوہان کو چھو رہے تھے۔

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Read more

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.
error: