اداریہ: ایک تھا بندیال

چیف جسٹس (ر) عمر عطا بندیال، متنازع بینچز، غیر موزوں ریمارکس، تعجب خیز فیصلے

سپریم کورٹ آف پاکستان کے 28ویں چیف جسٹس عمر عطا بندیال آج عہدے کی مدت مکمل ہونے پر ریٹائر ہو گئے ہیں۔ صدرِ مملکت عارف علوی نے 13 جنوری 2022 کو جسٹس عمر عطا بندیال کی بطور چیف جسٹس آف سپریم کورٹ تقرری کی منظوری دی جس کے بعد انہوں نے 2 فروری 2022 کو چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا۔

بطور چیف جسٹس اپنے ریمارکس، فیصلوں اور ازخود نوٹسز کی وجہ سے سیاسی جماعتوں اور آئینی و قانونی ماہرین کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بننے والے عمر عطا بندیال 4 دسمبر 2004 کو لاہور ہائی کورٹ میں بطور جج تعینات ہوئے اور پھر یکم جون 2012 کو لاہور ہائی کورٹ کے 41ویں چیف جسٹس مقرر کر دیئے گئے۔

دو برس تک لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہنے والے عمر عطا بندیال 17 جون 2014 کو سپریم کورٹ میں جج تعینات ہوئے اور پھر یکم فروری 2022 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے 27ویں چیف جسٹس گلزار احمد کی ریٹائرمنٹ کے بعد مصنف اعظم کی کرسی پر براجمان ہو گئے۔

سیاسی نوعیت اور آئینی تشریحات کے مقدمات کی سماعت کیلئے بینچز کی متنازع تشکیل، دورانِ سماعت اپنے غیر موزوں ریمارکس اور تعجب خیز فیصلوں کے باعث تعصب، جانبداری، بددیانتی اور ایک سیاسی فریق کی جانب جھکاؤ کے الزامات کا سامنا کرنے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا شمار ملکی تاریخ کے متنازع ترین منصفین اعظم میں کیا جا رہا ہے۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر کردار

بطور چیف جسٹس ان کے متنازع فیصلوں کی تازہ ترین مثال چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان کی درخواست پر پارلیمنٹ کی جانب سے نیب قوانین میں منظور کی گئی ترامیم کو کالعدم قرار دینا ہے، سیاسی جماعتوں اور آئینی و قانونی ماہرین اس فیصلہ کو نہ صرف آئینی اختیارات سے تجاوز قرار دے رہے ہیں بلکہ اس فیصلہ کی بنیاد پر یہ تاثر مزید تقویت حاصل کر گیا ہے چیف جسٹس عمر عطا بندیال ایک مخصوص سیاسی سوچ کی حمایت کر رہے ہیں۔

آڈیو لیکس کمیشن کو کام سے روکنا

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریٹائرمنٹ سے ایک ہفتہ قبل آڈیو لیکس کمیشن کیس میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی سابقہ حکومت کے اعتراضات کو مسترد قرار دیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس کیس میں دو سماعتوں کے بعد ہی آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کو کام کرنے سے روکتے ہوئے وفاقی حکومت کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا تھا، آڈیو لیکس کمیشن جن آڈیوز پر تحقیقات کر رہا تھا ان میں سے ایک آڈیو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی خوش دامن (ساس) کی بھی تھی جس میں وہ تحریکِ انصاف کے وکیل خواجہ طارق رحیم کی اہلیہ سے سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت مقدمات کے حوالہ سے چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور دیگر ججز سے اپنی گفتگو اور اپروچ کا احوال بیان کر رہی ہیں۔

پنجاب، خیبرپختونخوا الیکشن ازخود نوٹس کیس

بطور چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ساکھ کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والا معاملہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کیلئے ازخود نوٹس کیس تھا جس میں ابتدائی طور پر 9 رکنی بینچ میں شامل چار ججز نے ازخود نوٹس کیس سے اختلاف کیا اور درخواستیں مسترد قرار دیتے ہوئے تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔ بعد ازاں، پانچ رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا اور پھر تین رکنی بینچ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کیلئے 14 مئی کی تاریخ کا فیصلہ سنا دیا۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کیس کے متعلق سپریم کورٹ کے متعدد ججز، وفاقی حکومت اور آئینی ماہرین نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ 9 رکنی بینچ میں شامل 4 ججز نے ازخود نوٹس کی درخواستیں مسترد قرار دیں لہذا یہ ازخود نوٹس چار تین سے مسترد ہوا۔ مزید برآں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے وفاقی حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے فل کورٹ کا مطالبہ بھی منظور نہ کیا جس کے بعد انہیں سیاسی و قانونی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ان پر ایک مخصوص سیاسی فریق کی حمایت کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔

گڈ ٹو سی یو

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے سانحہ 9 مئی کے دو روز بعد عمران خان کا عدالت میں “گڈ ٹو سی یو” کہہ کر استقبال کرنے، گیسٹ ہاؤس میں رہائش سمیت متعدد شاہانہ پروٹوکولز کی فراہمی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کو عمران خان کے متعلق ہدایات کو بھی وسیع پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ گزشتہ برس 25 مئی کو عدالتی احکامات کی خلاف ورزی پر عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کی درخواست پر “ممکن ہے عمران خان کو درست پیغام نہ پہنچا ہو” کے ریمارکس نے بھی ان کے کیریئر کو متنازع بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

بطور جج سپریم کورٹ آف پاکستان

چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے سے قبل بھی ان کا شمار سیاسی نوعیت اور آئینی تشریحات کے مقدمات کی سماعت کیلئے بننے والے بینچز میں شامل چند مخصوص ججز میں ہوتا تھا، وہ ایسے کئی مقدمات کی سماعت کرنے والے بینچز میں شامل رہے جن کے متعلق وسیع پیمانے پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ ایک مخصوص سیاسی فریق کو سیاست کے میدان سے نکالنے یا کمزور کرنے کیلئے بنائے گئے اور پھر ان مقدمات میں ججز کے ریمارکس اور فیصلوں کو بھی شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا گیا۔

عمران خان کو صادق و امین قرار دینا

جسٹس عمر عطا بندیال دسمبر 2017 میں مسلم لیگ نواز کے راہنما حنیف عباسی کی جانب سے دائر کیے گئے کیس میں عمران خان کی بنی گالا اراضی کو قانونی اور عمران خان کو صادق و امین قرار دینے والے تین رکنی بینچ میں شامل تھے۔ یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جس کو سیاسی جماعتوں اور آئینی و قانونی ماہرین کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور وسیع پیمانے پر ایک مخصوص سوچ کی عکاسی پر مبنی آئین سے متصادم فیصلہ قرار دیا گیا۔

آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کی تشریح

جسٹس عمر عطا بندیال فروری 2018 میں سپریم کورٹ کے اس تین رکنی بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کی تشریح کرتے ہوئے اسمبلی رکنیت سے نااہل قرار پانے والے شخص کو سیاسی جماعت کی صدارت کیلئے بھی نااہل قرار دیا۔ یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جس کو ایوب خان اور پرویز مشرف جیسے ملٹری ڈکٹیٹرز کی غیر جمہوری سوچ کی عکاسی قرار دیا گیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال اپریل 2018 میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کی مدت کا تعین کرنے والے پانچ رکنی بینچ میں بھی شامل تھے جبکہ فیصلہ میں کہا گیا کہ نااہلی تاحیات ہو گی۔ جسٹس عمر عطا بندیال جولائی 2018 میں ڈیم فنڈ کا فیصلہ کرنے والے ججز میں بھی شامل تھے۔ اسی سال دسمبر میں عمران خان کے معاونِ خصوصی زلفی بخاری کے خلاف نااہلی کی پٹیشن خارج کرنے والے ججز میں بھی عمر عطا بندیال کا نام شامل تھا۔

بطور قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال اگست 2021 میں “ازخود نوٹس کا مکمل اختیار چیف جسٹس کو حاصل ہے” کا فیصلہ سنانے والے پانچ رکنی بینچ کا بھی حصہ تھے۔

جولائی 2017 سے اب تک سیاسی نوعیت اور آئینی تشریحات کے مقدمات اور ازخود نوٹسز کا جائزہ لیا جائے تو جسٹس عمر عطا بندیال مسلسل توجہ کا مرکز رہنے والے چند ججز میں شامل رہے ہیں، اس عرصہ کے دوران عدلیہ سخت تنقید کی زد میں رہی ہے، بار بار ان ججز پر جانبداری اور بددیانتی کے الزامات بھی عائد کیے گئے جبکہ سپریم کورٹ کے اندر سے بھی ان ججز کے ریمارکس اور فیصلوں کے خلاف آوازیں بلند ہوتی رہی ہیں۔

عدلیہ کی تاریخ کے متنازع ترین ججز میں شمار کیے جانے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال آج اپنے عہدہ سے ریٹائر تو ہو گئے ہیں لیکن آئینی و قانونی ماہرین اور تجزیہ نگاروں کی جانب سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ ریٹائرمنٹ سیاسی و عدالتی منظر نامے پر ان کے تذکرہ کا اختتام نہیں بلکہ احتساب اور ریویوز کے ایک نئے سلسلہ کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

More from The Thursday Times

error: