اداریہ: جنگ کی چنگاریوں میں مؤثر سفارت کاری

جنگی ڈھول کی تھاپ پر نشے میں دھت دنیا کے اندر خاموش مصلحت اور غیر معمولی اعصاب کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اقوامِ متحدہ میں مؤثر، مضبوط اور بااعتماد انداز میں پاکستان کا مؤقف اجاگر کر دیا ہے۔

یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ اقوامِ متحدہ کے ایوانوں میں کھوکھلے نعروں کے سوا کوئی مؤثر آواز بھی گونجے لیکن چند روز قبل وہاں ایک ایسی آواز ابھری ہے جو اخلاقی وضاحت، سیاسی تدبر اور زخم خوردہ سچائی سے لبریز تھی۔ بلاول بھٹو زرداری نے مائیک کے سامنے آ کر صرف تقریر نہیں کی بلکہ ایک ایسا بیانیہ پیش کیا جس کو دنیا اگر نظر انداز کرے گی تو پھر اس کی قیمت بھی دنیا کو خود ہی چکانا پڑے گی۔

یہ کوئی روایتی خطاب نہ تھا بلکہ ایک احتساب تھا — یہ دکھ، منافقت اور جنگی جنون کا محاسبہ تھا۔ بلاول بھٹو زرداری ایک زخمی جمہوریت کے وارث اور ایک ایسی سیاسی تاریخ کے نمائندہ تھے جو لاشوں اور غلط فیصلوں سے بھری ہوئی ہے لیکن اُس روز وہ صرف ایک وارث نہیں بلکہ ایک مدبر سٹیٹس مین کی حیثیت سے کھڑے تھے۔ دہلی میں شاید رائے تبدیل نہ ہوئی ہو اور واشنگٹن میں شاید ڈپلومیٹس کے رویوں میں نرمی نہ آئی ہو لیکن دنیا کو ضرور یاد دلایا گیا کہ بین الاقوامی سیاست میں اب بھی سچائی اور جرأت کا وجود ایک ساتھ ممکن ہے۔

ان کے الفاظ میں صرف وزن نہیں تھا بلکہ وراثت بھی تھی۔ کہیں ذوالفقار بھٹو کی فولادی آواز اور کہیں بےنظیر کی نفاست سنائی دیتی تھی۔ لیکن یہ محض نقل نہ تھی بلکہ ایک ارتقاء تھا۔ جہاں ان کی والدہ نے جاذبیت سے متاثر کیا، وہاں بلاول نے سنجیدگی سے قائل کیا۔ جہاں دوسرے شور مچاتے ہیں، وہاں بلاول نے تجزیہ پیش کیا۔ ان کی آواز نے المیوں سے جنم لیا تھا مگر صرف یہی ان کی پہچان نہ تھی۔ یہ ایک ایسا لہجہ تھا جو جنازوں اور عالمی محاذ، دونوں میں کھڑے ہونے کا تجربہ رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ اصل طاقت تبھی دکھائی دیتی ہے جب انسان تباہی سے گریز کرے۔

بلاول نے اپنے بیانیہ کو خشک اور کاری مزاح کے ساتھ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم چاہتے تو بھارت کے بیس طیارے بھی تباہ کر سکتے تھے لیکن ہم نے صرف چھ گرائے‘‘ — کسی اور کے منہ سے یہ جنگجوئی تصور ہوتی مگر بلاول کی زبان میں یہ مکمل طور پر ایک الگ بات تھی، پاکستان کی فوجی صلاحیت بیان کرتے ہوئے یہ کوئی جنگی للکار نہ تھی بلکہ ایک افسوسناک حقیقت کی یاد دہانی تھی۔ یہ ایک فوجی جنرل کا غرور نہیں بلکہ ایک مدبر سیاستدان کی تھکن بھری آہ تھی جو جانتا ہے کہ ہر گرنے والے طیارے کے ساتھ کتنی زندگیاں جاتی ہیں۔ بلاول کے لہجہ میں کوئی شیخی نہ تھی بلکہ ایک قسم کا دکھ بھرا فخر تھا کہ اس کے ملک نے جارحیت کے مقابلہ میں تحمل کا مظاہرہ کیا۔

اور یہ سب سنجیدگی میں محدود نہ تھا۔ بلاول کا بیان — جس میں انہوں نے نریندر مودی کو ’’نیتن یاہو کی سستی کاپی، ٹیمو ورژن‘‘ کہا — نہ صرف ایک سیاسی وار تھا بلکہ ایک بیانی شاہکار بھی تھا۔ اس ایک جملے میں انہوں نے دو خود ساختہ راہنماؤں کی شخصیت کی ہوا نکال دی۔

مگر طنز سے نیچے ایک سنجیدہ احتساب بھی جاری تھا۔ بلاول نے جب بھارت کی طرف سے اسرائیلی ڈرونز کے استعمال، ملبے میں ڈھل جانے والی مساجد اور شہری ہلاکتوں کے بارے میں بات کی تو انہوں نے بےنام حقیقتوں کو نام دے دیئے؛ کشمیر میں جو ہو رہا ہے وہ فلسطین کی نوآبادیاتی داستان سے مختلف نہیں۔ غیرقانونی آبادکاریاں، خودمختاری کی تنسیخ، آبادیاتی انجینئرنگ — یہ پالیسیز نہیں بلکہ یہ مٹا دینے کی حکمتِ عملیاں ہیں۔ بلاول کی یہ باتیں دنیا کو اشتعال دلانے کیلئے نہ تھیں بلکہ یہ دنیا کو کچھ دلانے کیلئے تھیں۔

سب سے نمایاں بات یہ تھی کہ انہوں نے انتقام کی زبان سے اجتناب کیا۔ انہوں نے پاکستانی تکلیف کو کسی اخلاقی عظمت کے لبادے میں نہیں لپیٹا بلکہ اس کو ایک کھلے زخم کے طور پر بیان کیا۔ بلاول نے کہا کہ ’’پاکستان دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار رہا ہے، میں خود نشانہ بنا اور میری ماں دہشتگردوں کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گئیں‘‘ جبکہ یہ الفاظ مظلومیت کا دعویٰ نہ تھے بلکہ تجربہ اور مزاحمت کی سند تھے۔

بلاول نے دہشت کے سائے میں زندگی گزاری ہے اور اس کے بعد کے حالات کا بھی سامنا کیا ہے۔ اس موضوع پر اس کا اختیار علمی نہیں بلکہ یہ ایک قریبی تعلق ہے جس سے بلاول کے اس اصرار کو وزن ملتا ہے کہ دہشتگردی کو سیاسی لبادے کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا، اسے مظلوموں کو خاموش کرنے یا اجتماعی سزا کا جواز فراہم کرنے کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے آئی ایس آئی اور را کے درمیان تعاون کی اپیل کی — ایک ایسا جملہ جو جنگی تناؤ کے فوراً بعد حیران کرتا ہے کیونکہ دونوں ممالک کے میزائلز ابھی ٹھنڈے ہوئے تھے اور جنگ بندی پر دستخط بھی تازہ تھے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ خطے کی دو سخت ترین انٹیلیجنس ایجنسیز کو بیٹھ کر بات کرنی چاہیے۔ یہ سادہ لوح بات نہیں بلکہ عملیت پسندی کا انقلابی مظاہرہ تھا کہ دشمنوں کے بھی مشترکہ مفادات ہو سکتے ہیں

بھارت کی آبی سیاست پر بلاول کی تنقید بھی مؤثر تھی۔ جب انہوں نے پوچھا؛ ’’اگر کوئی آپ کی لائف لائن کاٹ دے تو دنیا کیا کرے گی؟‘‘ تو یہ صرف بیان بازی نہ تھی – یہ ایک قوم کی طرف سے پیغام تھا جس کا مقصد جغرافیائی سیاسی وزن کے تحت بقاء کی ضمانت دینا تھا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ بھارت کی آبی جارحیت علاقائی امن کیلئے سنگین خطرہ ہے، انہوں نے بھارت پر سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا اور کہا کہ یہ تکنیکی معاملہ کے طور پر نہیں بلکہ جان بوجھ کر اشتعال انگیزی ہے۔ آب و ہوا سے متاثرہ دنیا میں پانی کی سیاست موزوں نہیں ہے۔ یہ وقار، معاشی انصاف اور بقا کا مسئلہ ہے۔

بلاول محتاط انداز میں آگے بڑھتے رہے۔ اپنے خطاب کے دوران انہوں نے پاکستان کی کمزوریوں پر پردہ نہ ڈالا اور کوئی برتری کا دعویٰ نہ کیا بلکہ مساوات کا تقاضا کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم بھارت کے پروپیگنڈا سے آگے نکلنا چاہتے ہیں تو دونوں ممالک کو یکساں اخلاقی اور قانونی معیارات پر پرکھنا ہو گا۔

بالآخر بلاول بھٹو زرداری شاید ان چند بالغ سیاسی آوازوں میں سے ایک ہیں جو شعلہ بیانی سے بھرے اس خطے میں دانش کی بات کر رہے ہیں۔ وہ ایک بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں — ایک خاندان کا، ایک خطہ کا اور اس امید کا کہ سفارتکاری اب بھی دنیا بدل سکتی ہے۔ ان کا اقوامِ متحدہ میں خطاب کوئی پریس کانفرنس نہیں تھا بلکہ یہ ایک تشخیص تھا، اس بخار کی تشخیص جو جنوبی ایشیاء کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، اور ان جھوٹوں کی تشخیص جو اسے برقرار رکھتے ہیں۔ اس کا واحد علاج؛ بات چیت، تعاون، اور تحمل میں ہے۔

دنیا کو بلاول کی بات سننی چاہیے کیونکہ اگر جنوبی ایشیاء کو تباہی سے بچانا ہے تو یہ نعرے بازی سے نہیں بلکہ کسی ایک کی خاموش بصیرت سے ہو گا — قبل اس کے کہ راکھ کی خاموشی سب کچھ نگل جائے۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

More from The Thursday Times

error: