امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد اسلام آباد اور دیگر مقامات پر یہ سرگوشیاں بڑھتی جا رہی ہیں کہ کیا ٹرمپ کی صدارت سابق پاکستانی وزیراعظم عمران خان کیلئے سفارتی سطح پر کسی تبدیلی کا سبب بن سکتی ہے؟ عمران خان فی الوقت جیل میں قید ہیں اور مختلف قانونی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، بحیثیت امریکی صدر ماضی میں ڈونلڈ ٹرمپ کے سفارتی سطح پر غیر معمولی اقدامات عمران خان اور ان کے حامیوں کو امید فراہم کرتے ہیں مگر کیا ایک امریکی صدر حقیقتاً پاکستان کے داخلی اور قانونی معاملات میں مداخلت کر سکتا ہے یا عمران خان کی قانونی مشکلات ڈونلڈ ٹرمپ کی دسترس سے باہر ہیں؟
ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان کے درمیان تعلقات کا آغاز اس وقت ہوا جب سابق صدر نے پہلی بار صدرات سنبھالی تھی اور دونوں رہنماؤں کے درمیان حیرت انگیز ہم آہنگی دیکھی گئی۔ 2019 میں ٹرمپ نے خان کو وائٹ ہاؤس مدعو کیا، اور انہیں امریکہ طالبان امن مذاکرات اور خطے میں استحکام کے لئے پاکستان کی حمایت پر سراہا۔ اس دوستانہ ملاقات نے قیاس آرائیوں کو جنم دیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کو ایک مفید علاقائی اتحادی سمجھتے ہیں، جو پاکستان کی پیچیدہ سیاسی سرزمین پر مہارت رکھتے ہیں۔ آج کی صورتحال میں خان سیاسی تنہائی کا شکار ہیں اور ان پر مختلف الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ایسے میں ٹرمپ کی واپسی نے خان کے حامیوں میں یہ امید پیدا کی ہے کہ امریکی سفارتکاری مداخلت کر سکتی ہے۔
ٹرمپ کی غیر روایتی خارجہ پالیسی، جو ذاتی اور عوامی سطح پر مذاکرات کی خواہش پر مبنی ہے، خان کے لئے ایک ممکنہ مدد ثابت ہو سکتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ہمیشہ “مضبوط رہنماؤں” اور خود مختار ممالک کی حمایت کا عندیہ دیا ہے، اور خان کو وہ ایسی ہی کہانی کا حصہ سمجھ سکتے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جنگ پر مبنی ہے۔ عمران خان کی اپنی بیان بازی، جو اکثر ڈونلڈ ٹرمپ کی عوامی موضوعات کو دہراتی ہے، ٹرمپ کی انتظامیہ کے لئے ہم آہنگ ہو سکتی ہے۔ مگر پاکستان کی موجودہ حکومت کو اس طرح کی سفارتکاری کو ماننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
پاکستان میں عمران خان کی قانونی مشکلات وسیع اور پیچیدہ ہیں، جن میں مبینہ بدعنوانی، ریاستی تحائف کی غیر قانونی فروخت، اور ریاستی رازوں کے افشاء جیسے الزامات شامل ہیں۔ ان کے کئی الزامات کو ختم کر دیا گیا ہے، مگر 150 سے زیادہ مقدمات ابھی بھی زیر سماعت ہیں، اور ان کی آزادی یقینی نہیں ہے۔ حتی کہ ٹرمپ کی مدد سے بھی ان پیچیدہ عدالتی معاملات میں مداخلت کرنا محض سفارتی مداخلت سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہوگا۔
تاریخی طور پر پاکستان میں امریکی اثر و رسوخ ایک نازک معاملہ رہا ہے، اور مقامی رہنماؤں کو خارجی دباؤ کے خلاف حساسیت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اگرچہ واشنگٹن نے اکثر پاکستان کی سکیورٹی اور معاشی پالیسیوں میں اثر و رسوخ ڈالا ہے، مگر پاکستان کی عدلیہ تک اس کی پہنچ محدود رہی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے لئے پاکستان اب ثانوی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ وہ بھارت کے ساتھ مضبوط تعلقات کو ترجیح دے رہا ہے، جو چین کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک اہم کھلاڑی بن چکا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں، مگر اسلام آباد کی سیاست اس طرح کی رسائی کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
اس چیلنج کو مزید پیچیدہ بنانے والا پاکستان کا فوجی ادارہ ہے، جس کا ملک کی سیاست پر ہمیشہ سے مضبوط اثر رہا ہے۔ عمران خان کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیان بازی اور فوج پر ان کے الزامات ان کے معاملے کو مزید مشکل بنا دیتے ہیں۔ ٹرمپ کی واپسی سے پاکستان کے لئے خان کو قید میں رکھنے کی سفارتی قیمت بڑھ سکتی ہے، مگر ایک اعلیٰ سطحی قانونی معاملے میں براہ راست مداخلت ایک بالکل الگ معاملہ ہے۔عمران خان کے حامی امید رکھتے ہیں، مگر کسی بھی طرح کی امریکی مداخلت کو مداخلت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جو عمران خان کی قانونی مشکلات کو مزید پیچیدہ کر سکتا ہے۔
عمران خان کے حامی جو ان کی گرفتاری اور نااہلی کو سیاسی طور پر تحریک دی گئی سمجھتے ہیں، کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت ان کے لیڈر کی امیدوں کو پھر سے زندہ کر سکتی ہے۔ ٹرمپ کی اپنی قانونی مشکلات اور سیاسی بیان بازی کی خواہش انہیں عمران خان کی مشکلات کے لئے حمایت کرنے پر مائل کر سکتی ہے۔ مگر محض ایک عوامی حمایت عمران خان کے لئے کافی نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کی عدلیہ پر مقامی دباؤ بڑھ رہا ہے اور عوام کا ایک بڑا حصہ عمران خان کی قانونی حیثیت پر منقسم ہے۔ ٹرمپ کی حمایت سے عمران خان کے حامیوں کو حوصلہ مل سکتا ہے، مگر یہ ان کے ناقدین کو بھی تقویت دے سکتا ہے جو غیر ملکی حمایت کو ناپسندیدہ مداخلت سمجھتے ہیں۔
عمران خان کے خلاف مختلف الزامات معاملے کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں۔ اگرچہ کچھ الزامات کو ختم کیا گیا ہے، مگر تشدد کے لئے اکسانا اور عدالت کی توہین جیسے الزامات ابھی بھی باقی ہیں۔ یہ الزامات پاکستان کے قانونی فریم ورک میں بہت اہمیت رکھتے ہیں اور داخلی سلامتی کے مسائل سے جڑے ہیں۔ کسی بھی امریکی مداخلت کے لئے یہ ضروری ہوگا کہ وہ قانونی فریم ورک اور جانبداری کے تاثر کو مدنظر رکھے۔ ٹرمپ کی سیدھی سفارتکاری کچھ جگہوں پر ایک اثاثہ ثابت ہو سکتی ہے، مگر اس معاملے میں یہ زیادہ مزاحمت پیدا کر سکتی ہے۔
وسیع تناظر میں، ٹرمپ کی ممکنہ شمولیت پاکستان کے حوالے سے کسی خاص سیاسی معاملے کی بجائے انسداد دہشت گردی، علاقائی استحکام اور افغانستان پر توجہ مرکوز کر سکتی ہے۔ عمران خان کی قسمت کو آسانی سے وسیع تر پاک امریکہ تعلقات میں نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ عمران خان کے حامیوں کی خواہش کے برعکس، ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ غالباً پاکستان کے حوالے سے اپنی دلچسپیوں کو اولیت دے گی۔ اگر عمران خان کی رہائی امریکی مفادات کے مطابق نہیں ہے تو ٹرمپ کا اثر محدود ہو سکتا ہے۔
حتی کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کی رہائی کے لئے کوششیں کرتے ہیں تو ان کی کوششوں کو پاکستان میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مقامی رائے عامہ شدید منقسم ہے، بہت سے لوگ عمران خان کی قید کو احتساب کے لئے ضروری سمجھتے ہیں، جبکہ دیگر اسے سیاسی تحریک کا نتیجہ مانتے ہیں۔ ٹرمپ کو بڑی احتیاط سے چلنا ہوگا، کیونکہ عمران خان کے لئے کھلی حمایت پاکستانی حکومت اور فوجی قیادت کے کچھ حصوں کو بدظن کر سکتی ہے، جو پہلے ہی امریکی ارادوں پر شک کرتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی سے پاکستان کے گرد علاقائی طاقت کا توازن تبدیل ہو سکتا ہے۔ اگر وہ عمران خان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں، تو یہ اسلام آباد کو عمران خان کے کیسز پر نظرثانی کرنے کی طرف اشارہ دے سکتا ہے۔ مگر ایک سفارتی تبدیلی کے لئے امریکہ مخالف جذبات کو ہوا دیئے بغیر توازن برقرار رکھنا ہوگا۔
عمران خان کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت ایک دو دھاری تلوار ہے۔ ٹرمپ کا غیر روایتی انداز اور خان کے ساتھ ماضی کے تعلقات ایک موقع فراہم کر سکتے ہیں، مگر پاکستان کے قانونی نظام پر اثر ڈالنے کے عملی پہلو اہم ہیں۔ ٹرمپ کی بیان بازی خان کے حامیوں کو متاثر کر سکتی ہے، مگر یہ ان کے مخالفین کو بھی بھڑکا سکتی ہے۔ آخر کار عمران خان کی رہائی کا فیصلہ وائٹ ہاؤس میں نہیں بلکہ پاکستان کے عدالتی اور سیاسی اداروں کے پاس ہے، جو خارجی دباؤ کو ماننے میں مزاحمت کر سکتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسری بار صدارت سنبھالنے پر عمران خان کے حامیوں کو امید ہے کہ نئے صدر ان کے لیڈر کے لئے آواز اٹھائیں گے۔ مگر پاک امریکہ تعلقات سیکیورٹی ترجیحات، علاقائی اتحادوں اور طویل عرصے سے موجود تناؤ کی بناء پر پیچیدہ ہیں۔ حتی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا منفرد انداز ان مسائل کو حل کرنے کے لئے ناکافی ثابت ہو سکتا ہے۔ عمران خان کا معاملہ شاید ایک علامتی مسئلہ بن کر رہ جائے گا، جہاں ٹرمپ اپنے پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے بیانات دیں، مگر عملی تبدیلی لانا مشکل ہو سکتا ہے۔
اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی خان کی امیدوں کو دوبارہ زندہ کر سکتی ہے، مگر یہ ان کی قانونی صورتحال کو زیادہ تبدیل کرنے کا امکان نہیں رکھتی۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی رہائی زیادہ تر پاکستان کی داخلی سیاست پر منحصر ہے نہ کہ کسی امریکی سفارتی کوشش پر۔ ٹرمپ اپنی طاقت کو خان کی مشکلات پر عالمی توجہ دلانے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں، مگر اصل حل ایک داخلی پاکستانی معاملہ ہی ہے۔
فی الحال، جب تک عمران خان اپنی قانونی لڑائی لڑ رہے ہیں، ان کے حامی ڈونلڈ ٹرمپ کی ممکنہ حمایت میں سکون تلاش کر سکتے ہیں۔ مگر پاکستانی سیاست کی پیچیدگیاں اور بیرونی مداخلت کے خلاف ملک کا حساسیت مضبوط رکاوٹیں پیش کرتی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی عمران خان کی امیدوں کو زندہ کر سکتی ہے، مگر کیا یہ انہیں قانونی بندھن سے آزاد کر سکتی ہے، یہ سوال اب بھی غیر یقینی ہے۔