اداریہ: رچرڈ گرینل کی فری عمران خان مہم اورپاکستانی اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت

رچرڈ گرینل کی'فری عمران خان مہم' امریکی کردار پر سوال؟ عمران رجیم میں فاشزم پر خاموش رہنےوالے گرینل کی پاکستانی اندرونی معاملات پر تنقید۔ جسے ناپسندیدہ قرار دیکر جرمنی سے نکالنے کا مطالبہ کیا گیا، وہی آج پاکستانی اندرونی معاملات میں دخل انداز۔ امریکی مفادات کا ایجنڈا یا کچھ اور؟

رچرڈ گرینل، جنہیں نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خصوصی مشنز کیلئے ایلچی مقرر کیا ہے، وہ سوشل میڈیا بالخصوص ٹویٹر (ایکس) پر مسلسل عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بار بار ’’فری عمران خان‘‘ والے ٹویٹس سے لے کر عمران خان کی ’’حقیقی آزادی‘‘ والے بیانیہ سے متعلق پوسٹس تک، رچرڈ گرینل کے اکاؤنٹ کی ٹائم لائن اپنے آپ میں ایک مہم بن چکی ہے۔ لیکن ایک امریکی سفارتکار ’’رچرڈ گرینل‘‘ پاکستان کی داخلی سیاست سے متعلق اس قدر فکرمند کیوں ہیں؟ کیا یہ ہلچل واقعی جمہوری اصولوں کی بنیاد پر ہے یا پھر کسی سٹریٹجک ایجنڈا کے تحت؟

رچرڈ گرینل کا ماضی بھی دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں غیر ضروری مداخلت کے الزامات سے داغدار ہے۔ مارچ 2019 میں جرمن سیاستدان ’’وولفگانگ کیوبیکی‘‘ نے اُس وقت کے امریکی سفیر رچرڈ گرینل کو ’’پرسونا نان گراٹا‘‘ یعنی ناپسندیدہ و غیر ضروری شخصیت قرار دینے اور جرمنی سے بےدخل کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے رچرڈ گرینل پر الزام عائد کیا کہ وہ جرمنی کے دفاعی اخراجات پر تنقید کر کے اپنی سفارتی حدود سے تجاوز کر رہے ہیں اور کسی ’’قابض قوت کے ہائی کمشنر‘‘ کی طرح برتاؤ کر رہے ہیں۔

جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاستدان ’’کارسٹن شنائیڈر‘‘ نے بھی رچرڈ گرینل کو ’’پرسونا نان گراٹا‘‘ یعنی ناپسندیدہ و غیر ضروری شخصیت قرار دینے اور جرمنی سے بےدخل کرنے کے مطالبہ کی حمایت کی اور رچرڈ گرینل کو ’’سفارتی ناکامی‘‘ قرار دیتے ہوئے اُن پر ’’ٹرانس اٹلانٹک تعلقات‘‘ یعنی امریکا و یورپ کے تعلقات کو شدید نقصان پہنچانے کا الزام لگایا۔

رچرڈ گرینل عمران خان کو ایک کامن سینس رکھنے والے ’’غیر سیاستدان‘‘ کے طور پر سراہتے ہیں لیکن یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ عمران خان کے دورِ حکومت میں جب سیاسی قائدین کو صرف عمران خان کی خواہش پر جیلوں میں قید کیا جا رہا تھا تو اُس وقت رچرڈ گرینل کہاں تھے؟ وہی آوازیں جو آج حقیقی آزادی کیلئے سرگرم ہیں، اُس وقت کیوں خاموش تھیں جب عمران خان کے مقابل سیاسی راہنماؤں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا اور آئین و قانون کی بات کرنے والے صحافیوں کو اُن کی ملازمتوں سے فارغ کروایا جا رہا تھا؟ یہ تضادات رچرڈ گرینل کی مہم پر سنگین سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا رچرڈ گرینل کے بیانات واقعی انصاف اور جمہوریت کا معاملہ ہیں یا پھر یہ امریکی اثر و رسوخ کے کسی بڑے ایجنڈے کا حصہ ہے؟

اب آتے ہیں رچرڈ گرینل کی طرف سے اٹھائے گئے ایک اور اہم معاملہ کی طرف ۔۔ رچرڈ گرینل اور واشنگٹن نے پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل پروگرام کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اسے ممکنہ خطرے کے طور پر پیش کیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا میزائل پروگرام دفاعی نوعیت کا ہے جو ایک غیر مستحکم خطہ میں استحکام کو برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے۔ رچرڈ گرینل اور واشنگٹن کی جانب سے تنقید امریکا کے اپنے وسیع میزائل نظام اور امریکا کے اپنے قریبی اتحادیوں کے ہتھیاروں کو نظر انداز کر رہی ہے۔ امریکی رویہ میں یہ یہ دوہرا معیار کیوں ہے؟

پاکستان کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے دفاعی نظام کو مزید مضبوط کرے، خاص طور پر جنوبی ایشیاء کے جغرافیائی سیاسی تناؤ کے پیشِ نظر پاکستان اپنا دفاع مزید مضبوط کرنے میں حق بجانب ہے۔ یہاں امریکا کی غیر ضروری تنقید کسی نئی اور بڑی حکمتِ عملی کا اشارہ دیتی ہے جس کا مقصد خودمختار ممالک میں بیانیہ اور پالیسیز پر کنٹرول ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے جائز دفاعی اقدامات کو جارحانہ انداز میں پیش کرتے رچرڈ گرینل کے تبصرے پاکستان کے داخلی معاملات میں بیرونی مداخلت کی ایک نئی مثال ہیں۔ یہ تنقید نہ صرف گمراہ کن ہے بلکہ پاکستان کے سیکورٹی فریم ورک کو کمزور کرنے کی بھی ایک کوشش ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ رچرڈ گرینل کے تبصرے اور اندازِ گفتگو ممکنہ طور پر ایک نئی امریکی سوچ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں کیونکہ واشنگٹن اب ان علاقوں میں دخل اندازی کی کوشش کر رہا ہے جنہیں اس نے برسوں تک نظر انداز کیے رکھا ہے۔ رچرڈ گرینل کی مسلسل پوسٹس اور امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے بیانات انصاف یا انسانی حقوق کے بجائے امریکی مفادات کے مطابق علاقائی سیاسی تحاریک کو دوبارہ ترتیب دینے کی حکمتِ عملی کے حصہ کے طور پر نظر آ رہے ہیں۔
تاہم، پاکستان نے اپنا مؤقف واضح کیا ہے کہ پاکستان کی پالیسیز قومی ترجیحات کے مطابق ہیں اور یہ کسی بیرونی دباؤ کی بناء پر نہیں بلکہ ملکی دفاع اور استحکام کے تقاضوں کے مطابق تشکیل دی جاتی ہیں۔

یہ بھی کوئی راز نہیں کہ رچرڈ گرینل نے بار بار پاکستان کیلئے یو ایس ایڈ کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے جو حسبِ معمول پی ٹی آئی (پاکستان تحریکِ انصاف) کے اعلیٰ عہدیداروں کا حمایت یافتہ بیانیہ ہے۔ یہاں تک کہ پی ٹی آئی راہنما شہباز گل نے بھی پاکستان کی پارلیمنٹ میں موجود اپنے مخالفین کو ’’ہومو فوبک‘‘ کہنے کیلئے ٹویٹر (ایکس) کی جانب رخ کیا تاکہ کسی بھی طرح سے رچرڈ گرینل کی حمایت کی جا سکے۔

مذید برآں ۔۔ میں امریکا اور برطانیہ میں موجود پی ٹی آئی (پاکستان تحریکِ انصاف) کی لیڈرشپس کے مابین مشکوک گٹھ جوڑ اور عمران خان کے سابق سسرالی ’’زیک گولڈ سمتھ‘‘ اور رچرڈ گرینل کے ساتھ ان کے تعلقات کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔

رچرڈ گرینل کی ’’فری عمران خان‘‘ مہم کیلئے حیران کن محنت اور پاکستان کے میزائل پروگرام پر امریکا کی بےجا تنقید کسی خاص نوعیت کی ناراضگی اور مداخلت کا اشارہ دیتی ہے۔ وہی رچرڈ گرینل اور وہی واشنگٹن جو عمران خان کے مدمقابل سیاسی راہنماؤں کے خلاف عمران خان کے جارحانہ اقدامات اور صحافتی آزادیوں پر قدغن کے حوالہ سے مکمل طور پر خاموش تھے، اب وہی رچرڈ گرینل اور وہی واشنگٹن جمہوریت اور انصاف کے دعویدار بن ریے ہیں۔ یہ واضح طور پر دوہرا معیار اور کوئی مخصوص ایجنڈا ہے۔ بہرحال پاکستان کی خودمختاری اور اس کے تمام ریاستی حقوق کا احترام کیا جانا چاہیے۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

More from The Thursday Times

error: