اداریہ: پہلگام واقعہ کے بعد، محمد علی جناح کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں

پہلگام کے بعد کشمیر کی صدائیں دہلی میں نہیں، بلکہ جناح کے عکس میں گونجتی ہیں، کیونکہ جب شناخت کو سزا دی جائے، مسلمان ہونا جرم بن جائے تو پاکستان کا خواب ایک پناہ گاہ بن جاتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہر سانحے، ہر قتلِ عام، ہر خونریزی کے بعد کشمیر میں جو پرچم بلند ہوتا ہے، وہ بھارتی ترنگا نہیں بلکہ سبز ہلالی پاکستانی پرچم ہوتا ہے؟

ایسا کیوں ہے کہ پہلگام کے لرزہ خیز واقعے کے بعد جب سیاحوں کی لاشیں سڑک پر بکھری ہوئی تھیں، جب ماتم کی صدائیں کرفیو اور بلوہ شکن وردیوں میں دفن ہو چکی تھیں، تو سری نگر کی گلیوں میں بھارتی پرچم نہیں، بلکہ پاکستانی پرچم لہرا رہا تھا؟

یہ پرچم ان لڑکوں کے ہاتھ میں کیوں ہوتا ہے جنہوں نے کبھی لائن آف کنٹرول عبور نہیں کی، جو کبھی اسلام آباد نہیں گئے، جنہوں نے کبھی امن دیکھا ہی نہیں، اور پھر بھی جب ان سے پوچھا جائے کہ وہ کون ہیں، تو آہستہ سے کہتے ہیں: “ہم پاکستانی ہیں”۔

کیونکہ وہ پرچم ان کے لیے اجنبی نہیں ہے۔ اجنبی تو بھارت ہے۔

اسکولوں کی بینچوں سے لے کر کالج کیمپسز تک، خاموش احتجاجی مارچوں سے لے کر گلیوں کے کرکٹ پچز تک، کہانی ایک ہی ہے۔ کشمیری—خصوصاً وہ نوجوان لڑکے جو غصے، ٹوٹ پھوٹ اور ناامیدی کے مارے ہیں—بھارت کی کامیابیوں کا جشن نہیں مناتے۔ وہ پاکستان کی فتح پر خوش ہوتے ہیں۔ وہ بابر اعظم اور شاہین آفریدی کے لیے نعرے لگاتے ہیں۔ وہ اُس وقت رو پڑتے ہیں جب پاکستان بھارت سے ہار جاتا ہے۔ اور جب بھارتی وکٹیں گرتی ہیں، تو ان کے نعرے گونجنے لگتے ہیں۔

یہ نفرت سے نہیں، یہ اس لیے کہ انہیں پاکستان کے سبز رنگ میں وہ کچھ نظر آتا ہے جو بھارت نے کبھی نہیں دیا: پہچان۔ فخر۔ آئینہ جیسی شناخت۔

کسی نے انہیں یہ سکھایا نہیں۔ کسی نے انہیں تربیت نہیں دی۔ یہ احساس خود پیدا ہوا۔ وراثت میں ملا۔ یہ اُن دہائیوں کی تذلیل کا نتیجہ ہے جن میں انہیں مسلسل اپنی وفاداری اُس ملک سے ثابت کرنی پڑی جس نے خود کبھی ان سے وفاداری نہ کی۔ انہیں کہو کہ وہ بھارتی ہیں، تو وہ سوال کریں گے—کیوں؟ جب ان کی مساجد پر نگرانی ہے، ان کے گھروں پر چھاپے ہیں، ان کے مستقبل کو مجرم بنا دیا گیا ہے۔ تم ان پرچم لہرانے والوں کو قید کر سکتے ہو، لیکن ان کے خواب کو نہیں۔

کشمیر کے نوجوانوں کے دلوں میں جو پاکستان کا خواب زندہ ہے، وہ کسی خیالی جنت کا خواب نہیں۔ وہ جانتے ہیں پاکستان میں مہنگائی ہے، عدم استحکام ہے، انسانی حقوق کے اپنے مسائل ہیں۔ مگر یہ جی ڈی پی کا سوال نہیں—یہ عزتِ نفس کا سوال ہے۔ یہ بغیر شک کے جینے کا حق ہے۔ عبادت کرنے کا حق، بنا خوف کے۔ اپنے مردوں کا سوگ منانے کا حق، بغیر دہشتگرد کہلائے۔ جس ٹیم کو چاہیں سپورٹ کرنے کا حق، بغیر عدالتوں اور تھانوں کی دھمکی کے۔

سوچو، کیا جذبہ ہوتا ہے کسی نوجوان کے دل میں جو محض “پاکستان زندہ باد” کہنے پر قید ہونے کا خطرہ مول لیتا ہے؟ دیوار پر ہلال بناتا ہے اور جانتا ہے کہ بوٹوں کی چاپ پیچھے آرہی ہے؟ یہ کوئی دوسرا اسے نہیں سکھاتا—یہ اس لیے کرتا ہے کہ وہ سب کچھ کھو چکا ہے، بس ایک لفظ بچا ہے: پاکستان۔

اکثر کشمیری لڑکوں کی سب سے بڑی خواہش دولت، تعلیم یا سفر نہیں ہوتی—بس اتنا ہوتا ہے کہ کوئی انہیں پاکستانی کہے۔

کہے: تم ہمارے ہو۔

اس لیے نہیں کہ وہ بھارت سے نفرت کرتے ہیں، بلکہ اس لیے کہ بھارت نے کبھی انہیں محبت کرنے کا موقع ہی نہ دیا۔

اور یہی وہ مقام ہے جہاں قائداعظم محمد علی جناح دوبارہ نمودار ہوتے ہیں۔ ایک بھٹکتی روح نہیں، بلکہ دور اندیشی کی ایک زندہ علامت۔ دہلی کی تنگ نظر قوم پرستی میں جناح کو تاریخ کا مجرم کہا جاتا ہے، مگر کشمیر کی وادی میں وہ تقسیم کرنے والے نہیں بلکہ محافظ ہیں۔ وہ شخص، جس نے دیکھ لیا تھا کہ اکثریتی تسلط کبھی نہیں رکے گا، کہ مسلمان مسئلہ بن جائیں گے، کہ سیکولرازم زعفرانی رنگ میں دفن ہوگا۔

جناح نے پاکستان بھارت کو خارج کرنے کے لیے نہیں، بلکہ مسلمانوں کو بچانے کے لیے بنایا تھا۔ اور جب بھی کوئی کشمیری لڑکا پاکستانی پرچم اوڑھتا ہے، وہ صرف پرچم نہیں اوڑھتا وہ جناح کے وژن کو زندہ کرتا ہے۔

“آپ ٹھیک تھے، قائد۔ انہوں نے ہمیں کبھی قبول ہی نہیں کیا۔”

بھارت کو ہر موقع ملا کہ وہ جناح کو غلط ثابت کرسکے، 75 سال ملے، ایک کثیرالقومی جمہوریت بنانے کے لیے، کشمیر کو گلے لگانے کے لیے، اپنے وعدے پورے کرنے کے لیے۔ مگر اس نے وادی کو ایک کھلا قید خانہ بنا دیا۔ خودمختاری چھینی۔ اختلافِ رائے کو جرم بنایا۔ سوگ کو بغاوت سمجھا۔

پہلگام کے ردعمل کو دیکھو—کیا مردوں کا سوگ منایا گیا، یا اسے سیاسی ہتھیار بنایا گیا؟ چند گھنٹوں میں بھارتی انتہا پسندوں نے غم کو نفرت میں بدل دیا، صدمے کو اسلاموفوبیا میں بدل دیا۔ کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا، ان کی وفاداری پر سوال اٹھایا گیا، ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔ کوئی ثبوت نہیں۔ صرف انتقام۔

اور پھر لوگ پوچھتے ہیں: وہ پاکستان کے نعرے کیوں لگاتے ہیں؟

اس لیے کہ انہوں نے دیکھ لیا ہے کہ بھارت غم منانے پر کیا کرتا ہے۔ اور وہ اس کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔

سیکولرازم آج کیسا لگتا ہے؟ ایک لڑکے کی پٹائی جو پنجاب میں سبز کپڑے پہنے۔ دہلی میں منہدم کی گئی مسجد اور تالیاں بجاتے ہجوم۔ حجاب پر پابندیاں۔ گاؤ کشی کے نام پر قتل۔ عدالتوں کی خاموشی۔

اگر یہی سیکولرازم ہے، تو جناح صرف درست نہیں تھے بلکہ شاید زیادہ نرم دل تھے کہ انہوں نے سمجھا، ساتھ جینے کی کوئی صورت ممکن ہوگی۔ پاکستان، اپنی ساری تکلیفوں کے باوجود، آج بھی مسلم شناخت کا تحفظ کرتا ہے۔ آج بھی بغیر فتویٰ یا الزام کے غصے کے لیے جگہ دیتا ہے۔

اسی لیے کشمیر کا رخ جنوب کی بجائے مشرق کی طرف ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اندھے نہیں ہیں۔ بلکہ شاید اب پہلے سے زیادہ واضح دیکھنے لگے ہیں۔ پہلگام کے خون میں، چھینے گئے پرچموں میں، عدالتوں میں مجرم بنائے گئے نعروں میں انہوں نے سچ دیکھ لیا ہے۔پاکستان کامل نہیں ہے۔ مگر وہ ان کا ہے۔ اور ایک ایسی دنیا میں جہاں مسلمان ہونا جرم سمجھا جاتا ہے، محسوس کرنا کہ آپ کسی کے ہیں، یہی سب کچھ ہے۔

نعرے بین کرو، آوازیں دبا دو، لڑکوں کو قید کرو، مگر تم اس سوال کو ختم نہیں کر سکتے جو آج ہر کشمیری ماں کے دل میں ہے: “میرا بیٹا پاکستان میں ہوتا، تو کیا وہ زندہ ہوتا”؟

پہلگام کے بعد، قائداعظم کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھو۔

کیونکہ کشمیر میں ان کا نام صرف یاد نہیں، امید ہے، نجات ہے۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

More from The Thursday Times

error: