جب اپریل 2025 میں برصغیر کا آسمان فضائی حملوں کے دھویں سے آلودہ ہو رہا تھا، سفارتی راستے خطرات کی گھنٹیاں بجا رہے تھے اور پاکستان ایک بار پھر خطہ میں بگڑتے ہوئے حالات کے بےرحم نشانے پر تھا تو اس فوجی نقل و حرکت کے شور اور عالمی بےچینی کی فضا میں ایک جانا پہچانا لیکن اکثر نظر انداز کیے جانے والا چہرہ منظرِ عام پر آیا — پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار — جو سیاسی حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے جذباتی نعروں کی بجائے ناپ تول کر ادا کیے گئے اپنے موزوں الفاظ کے ساتھ سفارتی محاذ کے مرکز میں دکھائی دیئے جبکہ یہ ایک ایسا وقت تھا جب بہت سے لوگ اس بحران کو مکمل جنگ کی طرف بڑھتا دیکھ رہے تھے۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ایک ہلاکت خیز حملے میں درجنوں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس واقعہ کے بعد بھارت نے ’’آپریشن سندور‘‘ کے نام سے پاکستانی حدود کے اندر میزائل حملے کر دیئے جبکہ دنیا سانس روک کر بیٹھی رہی۔ پاکستان کی جانب سے ’’آپریشن بُنْيَانٌ مَّرْصُوْص‘‘ کے ذریعہ مؤثر جواب دیا گیا۔ اگر میدانِ جنگ میں عسکری قیادت متحرک تھی تو اسحاق ڈار نے پاکستانی بیانیہ، رائے عامہ اور عالمی دباؤ جیسے نازک میدانوں میں پاکستان کی راہنمائی کی ذمہ داری سنبھالی۔ ان کا پہلا قدم یہ تھا کہ بھارتی حملوں کو واضح الفاظ میں ’’جنگی اقدام‘‘ قرار دیا — ایک دو ٹوک اور مبنی بر قانون مؤقف جو پاکستان کی پُرعزم اور غیر اشتعال انگیز پالیسی کا تعین کرتا تھا۔
اسحاق ڈار کا اگلا قدم تقریروں میں نہیں بلکہ بند دروازوں کے پیچھے اور دیگر ممالک کے مراکز میں تھا۔ بھارتی حملوں کے چند روز میں اسحاق ڈار بیجنگ پہنچے اور چینی وزیرِ خارجہ وانگ یی سے ملاقات کی۔ یہ صرف علامتی نہیں بلکہ سٹریٹجک اعتبار سے ایک کلیدی دورہ تھا جس کا مقصد پاکستان اور چین کے دیرینہ تعلقات کی توثیق تھا۔ جلد ہی چین نے بھارت سے تحمل برتنے کا کہہ کر پاکستان کی خودمختاری کی حمایت کی — یہ محض اتفاق نہیں تھا بلکہ پسِ پردہ ایک منظم سفارتی حکمتِ عملی کار فرما تھی۔ اسحاق ڈار نے وہ کامیابی حاصل کی جو اکثر دیگر راہنما کشیدگی کے وقت حاصل نہ کر سکے، انہوں نے اس بحران کو کسی کمزوری کے تاثر کے بغیر بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا۔
اسی دوران اسحاق ڈار نے کثیر الجہتی محاذ پر بھی بروقت اور مؤثر اقدامات کیے۔ ان کی راہنمائی میں پاکستان نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) سے رجوع کیا جس نے پاکستان کی حمایت میں بیان جاری کیا اور بھارت سے اشتعال انگیز بیانیہ بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ اگرچہ ایسے بیانات بظاہر رسمی لگ سکتے ہیں مگر آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن کی جانب سے کشمیر کے مسئلہ پر یہ ایک غیر معمولی اور واضح پوزیشن تھی۔ اسحاق ڈار جانتے تھے کہ اجتماعی آواز کی قوت بیانیہ کیلئے کس قدر مؤثر ثابت ہو سکتی ہے — پاکستان جارحانہ نہیں بلکہ دفاعی حیثیت میں سامنے آیا۔
ملک کے اندر بھی اسحاق ڈار کی حکمتِ عملی بھرپور اور نپی تلی رہی۔ جب مسلح افواج کی پریس بریفنگز اور ڈرونز کی ویڈیوز میڈیا پر چھائی ہوئی تھیں تب اسحاق ڈار اُن کے ساتھ کھڑے نظر آئے — مگر ایک سویلین زاویے کے ساتھ جو کہ کسی بھی میزائل ڈیفینس سسٹم کی طرح اہم تھا۔ انہوں نے اشتعال انگیزی سے گریز کیا اور تحمل، احساسِ ذمہ داری اور پُروقار رویہ پر زور دیا۔ اس طرح انہوں نے پاکستان کا اخلاقی مؤقف دفاع، خودمختاری اور تناسب کی ایسی زبان میں پیش کیا جو دنیا کیلئے قابلِ قبول تھی۔
سب سے اہم اور فیصلہ کن لمحہ 10 مئی 2025 کو آیا، جب اسحاق ڈار نے جنگ بندی کے معاہدے کا اعلان کیا۔ ایسے وقت میں جب خطہ طویل جھڑپوں کیلئے تیار ہو رہا تھا، اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان نے ’’اپنی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ کیے بغیر‘‘ جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ یہ کوئی فتح کا اعلان نہ تھا بلکہ ناپ تول کر دیا گیا امن کا ایک پیغام تھا۔ اس کی زبان اہم تھی — یہ عندیہ تھا کہ پاکستان خود پر مسلط کیے گئے کسی جذباتی قوم پرستی کے بیانیے کا حصہ نہیں بنے گا۔ اسحاق ڈار کی قیادت میں اسلام آباد نے واضح پیغام دیا کہ یہ تصادم ہمارے اصولوں کی قربانی دیئے بغیر ہماری شرائط پر ختم ہو گا، کسی دباؤ یا مصلحت کے تحت نہیں۔
اور جو باتیں اسحاق ڈار نے کہی نہیں، وہ بھی کم اہم نہیں۔ انہوں نے وہ عام اور جذباتی طرزِ عمل اختیار نہیں کیا جو اکثر بحرانوں میں دیکھنے کو ملتا ہے، انہوں نے عوامی داد و تحسین کیلئے سفارتی خفیہ دستاویزات کی نمائش نہیں کی اور نہ ہی سوشل میڈیا پر لفظی جنگیں چھیڑیں۔ اسحاق ڈار نے پاکستان کا لہجہ سنجیدہ اور باوقار رکھا۔ یہ رویہ آج کی تیز آوازوں والی دنیا میں واقعی انقلابی تھا۔
یقیناً ان کی کارکردگی کی کچھ حدود بھی ہیں، اسحاق ڈار کی سابقہ معاشی پالیسیز آج بھی تنقید کا مرکز بنتی ہیں اور ان کی شریف خاندان سے وفاداری ان کی غیر جانبداری کے تاثر پر اپنا اثر ڈالتی ہے۔ مگر ایسے وقت میں — جو شاید پلوامہ کے بعد سب سے سنگین جغرافیائی سیاسی بحران تھا — اسحاق ڈار کسی سیاسی دھڑے کے نمائندہ کی بجائے ریاست کے ایک سنجیدہ محافظ کے طور پر سامنے آئے اور بحرانی سیاست میں یہ کوئی معمولی بات نہیں۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اصل قیادت کا اعتراف دیر سے کیا جاتا ہے۔ مگر یہ بات آج ہی کہی جانی چاہیے جب سرحد کے اُس پار بارود کی بو ابھی باقی ہے؛ اسحاق ڈار نے اپنی ذمہ داری نہایت احتیاط، فہم و فراست اور ثابت قدمی سے نبھائی ہے۔ انہوں نے صرف پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ہی نہیں سنبھالا بلکہ اندرونی توازن کو بھی قائم رکھا — جو تقریروں اور پابندیوں سے کہیں زیادہ مشکل کام ہے۔
اگر سفارت کاری کا فن وہ ہے جو ناگزیر کو روک سکے تو اپریل اور مئی 2025 میں اسحاق ڈار کا کردار واقعی ایک فنکار کا تھا۔ یہ ایک مؤثر کردار تھا اور امن کی زبان میں مؤثر ہونا ہی سب سے بڑی قابلیت ہے۔