UNDER THE KNIFE:

پاکستان نے ماہرانہ سفارت کاری سے دنیا کو دکھا دیا ٹرمپ جیسے طاقتور رہنما سے کیسے ڈیل کیا جاتا ہے، سی این این

وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان نے سفارتی مہارت سے ثابت کیا کہ ٹرمپ جیسے طاقتور رہنما سے کیسے مؤثر انداز میں ڈیل کی جاتی ہے۔ غزہ جنگ بندی کے بعد ٹرمپ نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کو اپنا “پسندیدہ فیلڈ مارشل” قرار دیا، جبکہ واشنگٹن اسلام آباد کو خطے میں اہم شراکت دار کے طور پر دیکھ رہا ہے۔

اٹلانٹا (تھرسڈے ٹائمز) — غزہ جنگ بندی کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز عالمی رہنماؤں کے سامنے اپنی کامیابی کا جشن مناتے ہوئے پاکستان کے اعلیٰ فوجی سربراہ کا خصوصی ذکر کیا اور انہیں اپنا “پسندیدہ فیلڈ مارشل” قرار دیا۔

اس موقع پر ٹرمپ نے اسٹیج وزیراعظم شہباز شریف کے حوالے کیا جنہوں نے کہا وہ صدر ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے دوبارہ نامزد کریں گے، ایک ایسا منظر جو محض ایک سال پہلے ناقابل تصور تھا۔

سی این این کے مطابق، واشنگٹن طویل عرصے سے پاکستان سے محتاط فاصلہ رکھتا آیا ہے، اس کے سیاسی عدم استحکام، عسکری اثرورسوخ اور ان گروہوں سے مبینہ روابط کے باعث جنہیں امریکہ دہشت گرد تنظیمیں قرار دیتا ہے۔ چین کے ساتھ قریبی تعلقات نے بھی پاکستان کو امریکی خارجہ پالیسی میں ایک غیر یقینی مقام پر رکھا۔ سابق امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے دور میں کسی پاکستانی وزیراعظم کو کبھی فون نہیں کیا، اور 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پاکستان کو “دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک” قرار دیا تھا۔

تاہم ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت نے امریکی سفارت کاری کا توازن بدل دیا ہے۔ پرانے اتحادیوں سے فاصلے پیدا ہوئے ہیں اور نئے دوست قریب آ رہے ہیں۔ پاکستان نے اس نئے منظرنامے میں غیر معمولی تیزی سے اپنی جگہ بنا لی ہے۔

سی این این کے مطابق، پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے واشنگٹن سے تعلقات پہلے سے کہیں زیادہ گرم جوش ہو چکے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر وائٹ ہاؤس کے باقاعدہ مہمان بنے ہیں۔ پاکستان پر امریکی دباؤ کم ہوا ہے، اس کی فوج کو ریتھیون کے تیار کردہ جدید میزائل ملنے والے ہیں اور بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے لیے تجارتی ٹیرف نمایاں طور پر کم کر دیے گئے ہیں۔

پاکستان نے یہ کامیابی نہ صرف چین کے اثر سے ہٹ کر امریکہ کو نایاب معدنیات تک ترجیحی رسائی دینے کے وعدے سے حاصل کی ہے بلکہ ٹرمپ کے لیے سفارتی مہارت اور نرمی کا مظاہرہ کر کے بھی۔ اس حکمت عملی نے بھارت کو شدید ناراض کر دیا ہے، جو اب امریکی تجارتی پابندیوں اور روسی تیل کی خریداری پر بڑھتی ہوئی تنقید کا سامنا کر رہا ہے۔

فیلڈ مارشل عاصم منیر کا بڑھتا کردار

سی این این کے مطابق، پاکستان اور امریکہ کے بڑھتے تعلقات کے مرکز میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر ہیں۔ وہی فوجی سربراہ جنہیں پاکستان کی طاقتور فوج کا سب سے محتاط اور فیصلہ کن کمانڈر سمجھا جاتا ہے۔ عاصم منیر نے آئی ایس آئی کی سربراہی کے بعد 2022 میں فوج کی کمان سنبھالی۔ ان کی شہرت ایک منظم اور سنجیدہ شخصیت کے طور پر ہے۔

مئی 2025 میں وہ عالمی منظرنامے پر اس وقت نمایاں ہوئے جب بھارت اور پاکستان کے درمیان چار روزہ سرحدی جھڑپوں نے دنیا بھر میں تشویش پیدا کر دی کہ کہیں یہ محدود جنگ ایٹمی تصادم میں نہ بدل جائے۔ اسی دوران صدر ٹرمپ نے مداخلت کی اور دونوں ملکوں پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالا۔ پاکستان نے نہ صرف ٹرمپ کے کردار کو تسلیم کیا بلکہ انہیں نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔

بھارت نے ٹرمپ کے کردار کی تردید کی اور کہا کہ یہ معاملہ صرف بھارت اور پاکستان کے درمیان تھا۔ تاہم پاکستان نے اعلان کیا کہ اس نے مئی کی لڑائی میں بھارتی فضائیہ کے سات رافیل طیارے مار گرائے، ایک دعویٰ جو ٹرمپ نے بھی متعدد مواقع پر دہرایا۔ بھارت نے اب تک اس کی تصدیق نہیں کی۔

کچھ ہی دن بعد فیلڈ مارشل منیر واشنگٹن پہنچے۔ وہ پہلے پاکستانی فوجی سربراہ بنے جنہیں وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ کے ساتھ باضابطہ ظہرانے پر مدعو کیا گیا۔ اس ملاقات میں کوئی پاکستانی سول حکام شریک نہیں تھے۔

سی این این کے مطابق، امریکی تجزیہ کار شجاع نواز نے کہا کہ ٹرمپ ہمیشہ “جیتنے والوں” کو پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے فیلڈ مارشل منیر میں ایک ایسا رہنما دیکھا جو فیصلہ کن اقدامات کر سکتا ہے، اسی لیے دونوں کے درمیان غیر معمولی ہم آہنگی پیدا ہوئی۔

سی این این کے مطابق، صدر ٹرمپ کی قیادت میں غزہ امن سربراہی اجلاس میں پاکستان کے خطے میں بڑھتے کردار کو کھلے عام تسلیم کیا گیا۔ ایشیا پیسفک فاؤنڈیشن کے مائیکل کوگل مین کے مطابق، “مشرقِ وسطیٰ سے پاکستان کی جغرافیائی قربت اور اسلامی دنیا میں اس کے تعلقات نے اسے عالمی منظرنامے پر نمایاں کردار بخشا ہے۔”

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ایران کے ساتھ نرم اور مؤثر تعلق امریکہ کے لیے فائدہ مند ہے، کیونکہ اسلام آباد تہران تک امریکی پیغام رسانی میں پل کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ یہ وہی کردار ہے جو 1971 میں ہنری کسنجر کی خفیہ بیجنگ یاترا کے وقت پاکستان نے ادا کیا تھا۔

پاکستان کا سب سے بڑا سفارتی کارڈ اس کی معدنی دولت ہے۔ سی این این کے مطابق، پاکستان کے پاس تقریباً آٹھ کھرب ڈالر مالیت کے غیر استعمال شدہ ذخائر موجود ہیں، جن میں وہ نایاب معدنیات بھی شامل ہیں جو جدید ٹیکنالوجی، موبائل آلات، طبی مشینری اور فوجی سازوسامان کے لیے ضروری ہیں۔

ستمبر میں وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات کے دوران ایک تصویر میں دکھایا گیا کہ فیلڈ مارشل منیر نے صدر ٹرمپ کو لکڑی کے ایک خوبصورت ڈبے میں معدنی نمونے پیش کیے۔

اسی ماہ امریکی کمپنی یو ایس اسٹریٹیجک میٹلز نے اعلان کیا کہ اسے پاکستان سے نایاب معدنیات کی پہلی کھیپ موصول ہوئی ہے، جو 500 ملین ڈالر کے معاہدے کا حصہ ہے۔

یہ معدنیات زیادہ تر بلوچستان میں پائی جاتی ہیں، وہی صوبہ جو طویل عرصے سے علیحدگی پسند تحریکوں اور بیرونی مداخلت کے الزامات کے باعث بدامنی کا شکار ہے۔ اگست میں امریکہ نے بلوچستان لبریشن آرمی کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا، ایک گروہ جس پر پاکستان طویل عرصے سے بھارت کی مالی معاونت کا الزام لگاتا آ رہا ہے۔

ستمبر میں امریکہ نے پاکستان کو ریتھیون کے تیار کردہ میزائلوں کی فروخت کی منظوری دی، جو دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعلقات میں ایک نئی پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

error: