تجزیہ: پاکستان نے جدید ٹیکنالوجی پر مبنی ’’کِل چین آپریشن‘‘ سے بھارتی رافیل تباہ کیے، رائٹرز

پاکستان نے جدید ٹیکنالوجی پر مبنی ’’کِل چین آپریشن‘‘ کے تحت چینی ساختہ جے 10 سی طیاروں سے فرانسیسی ساختہ رافیل سمیت بھارتی طیاروں کو تباہ کیا، بھارتی انٹیلیجنس کو مہلک ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، واقعہ نے عسکری حلقوں میں حیرت میں ڈال کر مغربی اسلحہ جات کی افادیت پر سوالات اٹھا دیئے۔

لندن (تھرسڈے ٹائمز) — برطانوی نیوز ایجنسی “رائٹرز” کے مطابق رات کی تاریکی میں جدید دور کی طویل ترین جھڑپ (پاک بھارت جنگ) میں پاکستان نے جے 10 سی طیاروں سے داغے گئے پی ایل 15 میزائل سے فرانسیسی ساختہ رافیل سمیت بھارتی طیاروں کو بروقت نشانہ بنایا جبکہ بھارتی انٹیلیجنس کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، پاکستان نے ’’کِل چین‘‘ آپریشن ترتیب دیا اور میدان پر مضبوط گرفت حاصل کی، یہ واقعہ عسکری حلقوں میں حیرت کا باعث بنا اور اِس نے مغربی اسلحہ جات کی افادیت پر بھی سوالات اٹھا دیئے۔

رائٹرز نے لکھا ہے کہ 7 مئی کی نصف شب کے بعد پاکستان ائیر فورس کے آپریشنز روم کی سکرین اچانک سرخ ہو گئی جب سرحد پار بھارت کی فضائی حدود میں درجنوں دشمن طیاروں کی موجودگی ظاہر ہوئی۔ ائیر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو بھارتی ممکنہ کارروائی کے پیشِ نظر کئی دِنوں سے اسی کمرے کے قریب ایک میٹرس پر سو رہے تھے۔

بھارت نے گزشتہ ماہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ایک حملے (پہلگام واقعہ) کا الزام پاکستان پر عائد کیا جس میں 26 عام شہری ہلاک ہوئے تھے۔ اسلام آباد نے اِس حملے میں کسی بھی مداخلت سے انکار کیا مگر بھارت نے انتقام کا اعلان کر دیا جو بالآخر 7 مئی کی صبح پاکستان پر فضائی حملے کی صورت میں سامنے آیا۔

ائیر چیف مارشل سدھو نے فوراً چین سے درآمد کیے گئے قیمتی جے 10 سی جنگی طیاروں کو الرٹ کیا۔ پاکستان ایئر فورس کے ایک سینیئر اہلکار — جو اُس وقت آپریشن روم میں موجود تھے — کے مطابق سدھو نے عملہ کو خاص طور پر بھارت کے ’’رافیل طیاروں‘‘ کو نشانہ بنانے کی ہدایت دی جو بھارت کے فضائی بیڑے کا فخر اور اب تک کسی بھی جنگ میں تباہ نہ ہونے والا فرانسیسی ساختہ جنگی جہاز تھا۔

ماہرین کے مطابق رات کی تاریکی میں ہونے والی یہ ایک گھنٹہ طویل فضائی لڑائی جدید دور کی سب سے بڑی فضائی جھڑپ تھی جس میں تقریباً 110 طیارے شامل تھے۔

رائٹرز نے مئی میں امریکی حکام کے حوالہ سے رپورٹ کیا تھا کہ پاکستانی جے 10 سی طیاروں نے کم از کم ایک رافیل کو مار گرایا تھا۔ یہ واقعہ عسکری حلقوں میں حیرت کا باعث بنا اور اِس نے مغربی اسلحہ جات کی افادیت پر سوالات اٹھا دیئے، خصوصاً ایسے وقت میں جب چین کے ہتھیار میدانِ جنگ میں ابھی مکمل طور پر آزمائے نہیں گئے تھے۔

رافیل بنانے والی کمپنی Dassault کے شیئرز اِس خبر کے بعد گر گئے۔ انڈونیشیا اِس سے قبل رافیل طیاروں کے آرڈرز دے چکا تھا تاہم اب انڈونیشیا جے 10 سی طیارے خریدنے پر غور کر رہا ہے جو چین کیلئے ایک بڑی سفارتی اور تجارتی کامیابی ہو سکتی ہے۔

تاہم رائٹرز کی تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ رافیل کی کارکردگی اِس نقصان کی بنیادی وجہ نہیں تھی بلکہ اصل مسئلہ بھارتی انٹیلیجنس کا وہ ناکام اندازہ تھا جس میں جے 10 سی سے داغے گئے چینی پی ایل 15 میزائل کی رینج کو کم سمجھا گیا۔ چین اور پاکستان ہی وہ دو ممالک ہیں جو نہ صرف جے 10 سی بلکہ پی ایل 15 میزائل بھی استعمال کر رہے ہیں۔

بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ اُنہیں یقین تھا کہ پی ایل 15 میزائل کے ایکسپورٹ ورژن کی رینج صرف 150 کلومیٹرز کے قریب ہے جس کی وجہ سے رافیل کے پائلٹس خود کو محفوظ سمجھتے رہے۔

درحقیقت وہ میزائل 200 کلومیٹرز یا اِس سے بھی زیادہ فاصلے سے داغا گیا جو اب تک کے طویل ترین ایئر ٹو ایئر حملوں میں سے ایک مانا جا رہا ہے۔

ایک پاکستانی اہلکار نے بتایا کہ ہم نے اُنہیں (بھارتی طیاروں کو) گھات لگا کر مارا اور ساتھ ہی بھارتی پائلٹس کو الجھانے کیلئے دہلی کے کمیونیکیشن سسٹمز پر الیکٹرونک وارفیئر کا استعمال کیا گیا۔ اگرچہ بھارتی حکام نے اِن کوششوں کے مؤثر ہونے پر اعتراض کیا ہے لیکن برطانوی دفاعی ماہر جسٹن برونک نے اسے طویل فاصلے تک نشانہ بنانے کی چینی صلاحیت کا ثبوت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی ایسے حملہ کی توقع نہ کر رہے تھے۔

رائٹرز کے مطابق بھارت کی دفاعی و خارجہ وزارتوں نے رائٹرز کی جانب سے درخواست کے باوجود بھارتی انٹیلیجنس کی ناکامیوں کے بارے میں تبصرے سے انکار کر دیا۔

پاکستانی اور بھارتی حکام کے مطابق اسلام آباد نے نہ صرف اپنے میزائلز کی رینج کے ذریعہ حیرت انگیز برتری حاصل کی بلکہ زمینی اور فضائی نگرانی کے نظام کو بھی مؤثر طور پر اپنے اسلحہ کے ساتھ جوڑ کر جنگی میدان پر مکمل کنٹرول حاصل کیا۔

پاکستان کی ’’کِل چین‘‘ اور میدان پر گرفت

چار پاکستانی اہلکاروں کے مطابق انہوں نے ایک ’’کِل چین‘‘ یعنی کثیر الجہتی آپریشن ترتیب دیا جس میں فضائی، زمینی اور خلا میں موجود سینسرز کو باہم منسلک کیا گیا۔ یہ نیٹ ورک پاکستانی ڈویلپڈ ڈیٹا لنک 17 پر مبنی تھا جو چینی ہتھیاروں کو سویڈن کے تیار کردہ سرویلنس طیارے سمیت دیگر سسٹمز سے جوڑتا ہے۔

ماہرین کے مطابق اِس نظام کی مدد سے جے 10 سی طیارے اپنا ریڈار بند رکھ کر بھارتی حدود کے قریب پہنچے اور نگرانی کے طیارے سے ریڈار فیڈ حاصل کرتے رہے اور یوں وہ دشمن کی نظروں سے اوجھل رہے۔

دوسری جانب بھارت اب بھی ایسا نیٹ ورک بنانے کی کوشش میں ہے مگر اُسے دشواری اِس لیے ہو رہی ہے کیونکہ اُس کے فضائی بیڑے میں مختلف ممالک کی ٹیکنالوجیز شامل ہیں جنہیں ہم آہنگ کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے۔

برطانوی فضائیہ کے ریٹائرڈ ائیر مارشل اور اب روئل یونائیٹڈ سروس انسٹیٹیوٹ (آر یو ایس آئی) کے ماہر گریگ بیگویل کے مطابق یہ لڑائی کسی بھی فریق کی تکنیکی برتری کا قطعی ثبوت نہیں بلکہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ صحیح معلومات اور اُن کا بروقت استعمال ہی اصل جیت ہے۔

بھارتی حکمتِ عملی میں تبدیلی

بھارت نے 7 مئی کی صبح پاکستان میں اُن اہداف کو نشانہ بنایا جنہیں وہ دہشتگردی کا بنیادی ڈھانچہ قرار دیتا ہے۔ اِس کے جواب میں ائیر چیف سدھو نے فوری طور پر دفاعی پوزیشن سے حملہ کی حکمتِ عملی اختیار کرنے کا حکم دیا۔ پانچ پاکستانی اہلکاروں کے مطابق بھارت نے تقریباً 70 طیارے تعینات کیے جو توقع سے کہیں زیادہ تھے اور پاکستانی پی ایل 15 میزائلز کیلئے کافی ہدف فراہم کرتے تھے۔

یہ لڑائی بصری دائرہ سے باہر ہدف کو نشانہ بنانے والی پہلی بڑی فضائی جھڑپ تھی جس میں دونوں ممالک کے طیارے اپنی فضائی حدود میں رہے مگر میزائلز نے ایک دوسرے کو مار گرایا۔

بھارت کا کہنا ہے کہ اُن کے سیٹلائٹس جام نہیں کیے گئے اور رافیل پائلٹس کو مکمل اندھیرے میں نہیں رکھا گیا مگر یہ ضرور تسلیم کیا گیا ہے کہ پاکستانی مداخلت کی وجہ سے سوخوئی طیاروں کی کارکردگی متاثر ہوئی جس کی اپ گریڈیشن کا عمل اب جاری ہے۔

سیاسی قیود یا عسکری فیصلے؟

بھارتی سیکیورٹی ذرائع نے رافیل کے نقصانات کا الزام عسکری فیصلہ سازی پر نہیں بلکہ سیاسی قیود پر ڈال دیا ہے۔ جکارتہ میں بھارتی دفاعی اتاشی نے ایک سیمینار میں کہا کہ کچھ طیارے اِس لیے ضائع ہوئے کیونکہ سیاسی قیادت نے فوج کو حکم دیا تھا کہ وہ پاکستانی فوجی تنصیبات کو نشانہ نہ بنائیں۔

چینی مدد کا الزام

لڑائی کے بعد بھارت کے لیفٹیننٹ جنرل راہول سنگھ نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ اسے چین سے ’’لائیو ان پٹس‘‘ مل رہے تھے یعنی ریڈار اور سیٹلائٹ ڈیٹا۔ اسلام آباد نے اِس الزام کی تردید کی جبکہ چین کی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ عسکری تعاون معمول کے دائرہ کار میں ہے اور کسی تیسرے فریق کو ہدف نہیں بناتا۔

جولائی میں چین کے ایئر چیف جنرل وانگ گانگ نے پاکستان کا دورہ کیا جہاں پاکستانی حکام کے مطابق انہوں نے رافیل کے خلاف ’’کِل چین‘‘ کی حکمتِ عملی پر خصوصی دلچسپی ظاہر کی۔

چینی حکومت نے اِس دورے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا مگر پاکستانی افواج نے ایک بیان میں کہا کہ وانگ گانگ نے ’’ملٹی ڈومین آپریشنز‘‘ میں پاکستانی ائیر فورس کے تجربے سے سیکھنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

error: