تجزیہ: پاکستان کے سفارتی معجزے، کامیاب خارجہ پالیسی نے خطے کا توازن بدل دیا، امریکی جریدہ فارن پالیسی

پاکستان کے لیے 2025 سفارتی کامیابیوں کا سال ثابت ہوا۔ سعودی عرب کے ساتھ اسٹریٹجک دفاعی معاہدہ، امریکہ سے تعلقات کی بحالی، ایران اور ترکی کے ساتھ اقتصادی تعاون، اور چین کے ساتھ تعلقات کا فروغ اس بات کی علامت ہیں کہ پاکستان کی کامیاب اور متحرک خارجہ پالیسی نے خطے کے توازن کو نئی جہت دی ہے۔

واشنگٹن (تھرسڈے ٹائمز) — اسلام آباد کی سفارت کاری نے حالیہ مہینوں میں غیر معمولی پیش رفت کی ہے۔ معروف امریکی جریدے فارن پالیسی کیمطابق یہ کہنا مشکل ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پاکستان کی جانب جھکاؤ زیادہ اہم ہے یا سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان طے پانے والا اسٹریٹجک دفاعی معاہدہ، لیکن دونوں نے جنوب مغربی ایشیا کے تزویراتی منظرنامے میں ہلچل مچا دی ہے۔

فارن پالیسی کیمطابق یہ دفاعی معاہدہ محض چھ ماہ کے اندر پاکستان کی متحرک اور مؤثر سفارت کاری کا ثبوت ہے۔ اس عرصے میں اسلام آباد نے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں غیر معمولی بحالی کی، ترکی کے ساتھ دفاعی اور تجارتی تعلقات کو وسعت دی، ملائیشیا کے ساتھ دفاعی تعاون بڑھایا، ایران کے ساتھ توانائی اور تجارت کے نئے معاہدے کیے اور چین کے ساتھ وزیرِاعظم شہباز شریف کے حالیہ بیجنگ دورے کے دوران اقتصادی تعلقات کو مزید مضبوط بنایا۔

فارن پالیسی لکھتا ہے کہ گزشتہ سال جب پاکستان نے آئی ایم ایف سے چوبیسواں بیل آؤٹ حاصل کیا تو بین الاقوامی مالیاتی حلقوں میں یہ خدشہ موجود تھا کہ ملک دیوالیہ ہو سکتا ہے اور پاکستان کہیں ناکام ریاست نہ بن جائے۔ تاہم پاکستان  نے مختصر مدت میں معیشت کو مستحکم کر کے عالمی ماہرین کو حیران کر دیا۔ آج وہی ماہرین اس بات پر حیران ہیں کہ پاکستان نے نہ صرف اپنی معیشت کو مستحکم کیا بلکہ عالمی سفارتی سطح پر بھی اپنی پوزیشن بحال کر لی۔

فارن پالیسی کیمطابق سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دفاعی معاہدے کی فوری وجہ بظاہر اسرائیل کی جانب سے قطر میں حماس کے دفتر پر بمباری بنی، جس نے خلیجی ممالک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ قطر امریکہ کا قریبی اتحادی ہے اور مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑے امریکی فضائی اڈے کی میزبانی کرتا ہے۔ اس صورتحال نے ریاض کو اپنی علاقائی سلامتی کی حکمتِ عملی پر نظرثانی پر مجبور کیا۔

فارن پالیسی لکھتا ہے کہ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ دیگر خلیجی ممالک کے لیے بھی اس دفاعی معاہدے میں شمولیت کے دروازے کھلے ہیں۔ تاہم واشنگٹن کی جانب سے قطر کے ساتھ حالیہ نیٹو طرز کے دفاعی معاہدے اور سعودی عرب کے ساتھ اسی نوعیت کے مذاکرات سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ خطے میں اپنی سلامتی کی موجودگی کو مزید مضبوط بنانا چاہتا ہے۔

امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں یہ بحالی جنوبی ایشیا کے توازن کو متاثر کر رہی ہے جو گزشتہ پچیس برس سے بھارت کے حق میں تھا۔ مارچ میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی کی مدد سے امریکہ نے داعش-خراسان کے ایک اہم رکن کو گرفتار کیا جو کابل ایئرپورٹ حملے میں ملوث تھا۔ اس کامیابی کے بعد امریکی فوجی قیادت نے پاکستان کے تعاون کو سراہا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ بعض تجزیہ کار اس دفاعی معاہدے کو سعودی عرب اور پاکستان کے پہلے سے قائم فوجی و اقتصادی تعلقات کی باضابطہ توثیق قرار دیتے ہیں، نہ کہ کسی بڑی انقلابی تبدیلی کے طور پر۔ تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ’’ایکسٹینڈڈ ڈیٹرنس‘‘ یعنی توسیعی بازداریت کی ایک شکل ہو سکتی ہے، جو اسرائیل کے خطے میں ایٹمی اجارہ کو چیلنج کر سکتی ہے۔

فارن پالیسی کیمطابق سعودی عرب اور پاکستان کے مشترکہ اعلامیے میں نیٹو طرز کی زبان استعمال کی گئی، جس میں کہا گیا کہ ’’کسی ایک ملک پر حملہ دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔‘‘ تاہم رپورٹ کے مطابق ابھی تک کسی حقیقی سکیورٹی بحران میں اس معاہدے کا امتحان نہیں ہوا۔

فارن پالیسی کیمطابق سب سے حیران کن کامیابی پاکستان کی امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بحالی ہے جو افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد کمزور پڑ گئے تھے۔ یہ تبدیلی بھارت کے لیے تشویش کا باعث بنی ہے، جس نے پچیس برس تک امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے میں سرمایہ کاری کی۔

رپورٹ کے مطابق مارچ میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی کی مدد سے امریکہ نے داعش-خراسان کے ایک اہم رکن کو گرفتار کیا جو کابل ایئرپورٹ حملے میں ملوث تھا۔ اس کامیابی کے بعد امریکی سینٹ کام کمانڈر جنرل مائیکل کُریلا نے پاکستان کے کردار کو ’’غیر معمولی تعاون‘‘ قرار دیا۔

اسی دوران صدر ٹرمپ اور بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کے درمیان فون کال نے دونوں ممالک کے تعلقات کو نقصان پہنچایا۔ ٹرمپ نے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کا کریڈٹ خود لیا اور کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی، جس نے نئی دہلی کو برہم کر دیا۔ بعد ازاں امریکی صدر نے روسی تیل خریدنے پر بھارت پر پچاس فیصد ٹیرف عائد کر دیا اور اسے ’’مردہ معیشت‘‘ قرار دیا۔

اس تلخی نے پاکستان کے لیے موقع پیدا کیا۔ جون میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور صدر ٹرمپ کے درمیان دو گھنٹے طویل ملاقات ہوئی، جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے اقوامِ متحدہ، وائٹ ہاؤس اور مصر میں غزہ امن کانفرنس کے دوران امریکی قیادت سے متعدد ملاقاتیں کیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کی امریکی قیادت سے بات چیت اور غزہ امن کانفرنس میں پاکستان کا فعال کردار اس نئے باب کا حصہ ہیں۔

فارن پالیسی لکھتا ہے کہ پاکستان کو ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پرکشش تجارتی پیکیج بھی ملا، جس میں امریکی کمپنیوں کو پاکستانی تیل اور معدنیات کے ذخائر میں سرمایہ کاری کے حقوق دیے گئے۔ ایک امریکی کمپنی نے 50 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔

فارن پالیسی کیمطابق پاکستان کے روس اور چین کے ساتھ تعلقات اب بھی مضبوط ہیں اور سوال یہ ہے کہ اسلام آباد ان متوازی تعلقات کو کب تک متوازن رکھ سکے گا۔ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے دفاعی تعلقات کی تاریخ 1970 کی دہائی تک جاتی ہے۔ 1979 میں مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام پر حملے کے دوران پاکستانی کمانڈوز نے سعودی فورسز کے ساتھ مل کر کارروائی کی۔ آج بھی دو ہزار کے قریب پاکستانی فوجی سعودی عرب میں تربیت اور مشاورت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

ریاض نے گزشتہ برس پاکستان کو تین ارب ڈالر کا قرض فراہم کیا اور گوادر میں دس ارب ڈالر کی آئل ریفائنری کے قیام کی منظوری دی، جو چین پاکستان اقتصادی راہداری کا حصہ ہے۔

یہ تمام پیش رفت پاکستان کی متحرک سفارت کاری اور بدلتی ہوئی عالمی ترجیحات کی عکاس ہے۔ اسلام آباد نے مختصر مدت میں اپنی خارجہ پالیسی کو اس انداز میں ڈھالا ہے کہ وہ امریکہ، چین، سعودی عرب، ایران اور ترکی جیسے متضاد مفادات رکھنے والے ممالک کے ساتھ بیک وقت تعلقات قائم رکھ سکے۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

error: