spot_img

رائے: لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

spot_img

کہتے ہیں کہ اگر صبح کا بُھولا شام کو گھر آ جائے تو اسے بُھولا نہیں کہتے۔ مگر، اس کے ساتھ ساتھ ایک محاورہ اور بھی ہے کہ چور، چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے، تو ہمارے ملک کی ایک ایسی شخصیت جن کا دعویٰ جمہوری ہونے کا ہے، ان کا رویہ بالکل ایسا ہے کہ وہ کسی بھی موقع پر ہیرا پھیری سے باز نہیں آتے مگر اپنے آپ کو ظاہر ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جیسے وہ بہت بھولے بادشاہ ہیں۔ اپنی مجرمانہ تردامنی کا مدعا ہمیشہ کسی دوسرے کے سر ڈال کر خود بالکل معصوم بن جاتے ہیں۔ جب اس بارے میں ان سے سوال کیا جائے تو جواب میں کہہ دیتے ہیں کہ “‍دیکھیں! آپ لوگوں کو کنفیوژ نہ کریں”۔

جب یہ صاحب اس قوم پر مسلط کیے گئے تو ان کا دماغ عرش پر پہنچ گیا اور انہوں نے ہر وہ کام کیا جو کہ ملک اور عوام کے خلاف تھا مگر سادہ لوح عوام کو کمراہ کرنے کے لیے مذہبی چولا پہن لیا۔ انہوں نے ہر چاند پر تھوکا،  یہ پاکستان کے لیے اس دور کے لارنس آف عریبیہ ثابت ہوئے، درپردہ ملک و قوم کی جڑیں کاٹتے رہے مگر ناٹک رچاتے رہے کہ قوم کا ان سے بڑا ہمدرد نہ تو آج تک پیدا ہوا ہے اور نہ ہو گا۔ مگر وہ کہتے ہیں نا کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور اگر جھوٹا ان جیسا نااہل بھی ہو تو پھر سونے پہ سہاگہ۔ نہ ان سے انتظامیہ سنبھلی اور نہ معیشت، ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا کے مصداق، اپنی ناکامیوں کا الزام آج بھی دوسروں کے سر دھر رہے ہیں کہ فلاں نے مجھے کام نہیں کرنے دیا اور فلاں نے مجھ سے فلاں کام کروایا۔ جب بھی ان کو کوئی اچھا مشورہ دیا گیا، انہوں نے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیا۔ آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

جھوٹ اور ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بات پر قائم نہ رہنا اور الٹے پاؤں پھر جانا ان کی فطرت ہے۔ اصولوں کے معاملے میں تھالی کے بینگن ان صاحب کے نزدیک تھوک کر چاٹنا ان کے نزدیک عظیم راہنما ہونے کی نشانی ہے۔ اپنی ‍کارکردگی کے ہوائی قلعے تعمیر کر کے عوام کو سبز باغ دکھانے اور پھر نااہلی کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹنے پر بھی اس چکنے گھڑے پر کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ یہ مزید ڈھٹائی کے ساتھ اپنی نااہلی کے عذر تراشنے لگ گئے۔

ان کے سیاہ دور میں عوام نے ہر رات سولی پر کاٹی۔غربت اور بیروزگاری نے چارسو ڈیرے لگائے ہوئے تھے۔معیشت کے نام پر انہوں نے تاریخی قرضے لے کر ریت کی دیوار کھڑی کی تھی، آئی ایم ایف سے وعدہ خلافی کے دھکے سے وہ ڈھے گئی، نام نہاد معاشی ترقی بھی پانی کا بلبلا ثابت ہوئی۔ نہ تو پچاس لاکھ گھر تعمیر ہوئے اور نہ ہی ایک کروڑ نوکریوں کا کوئی سراغ ملا، مگر ملک کے طول و عرض میں بدعنوانی میں اضافہ ہوا اور ہر بدعنوانی کا کھرا موصوف کے گھر اور قریبی دوستوں تک جاتا ہے۔

بات ہوتی یہیں تک تو سہہ لیتے ہم مگر انہوں نے تو پاکستان کی شہ رگ کا سودا بھی کر کے ہماری آنے والی نسلوں کو پانی کی بوند بوند کے لیے ترسانے کے شیطانی منصوبے میں مرکزی کردار بھی ادا کیا۔ یہ ہمارے مستقبل کی راہ میں روڑے بھی اٹکا گئے ہیں اور کانٹے بھی بچھا گئے ہیں۔ مگر مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے، وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔ جب سے حقیقی منتخب نمائندوں نے اقتدار کی باگ دوڑ تھام کر ان کے ملک دشمن اقدامات کی درستگی کی شروعات ملکی تاریخ کے مشکل ترین فیصلے لے کر شروع کی ہے، اس وقت سے ان کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں کہ میں نے جس تباہی کی بنیاد رکھی تھی اس سے پاکستان کیسے اور کیونکر بچ رہا ہے اور سنبھل کر دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو رہا ہے۔

اس لیے اب انہوں نے نہ صرف دو صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر کے ملک میں طوائف الملوکیت پھیلانے کی کوشش کی ہے بلکہ قومی اسمبلی سے استعفے دینے کے فیصلے سے پھرنے کا بھی اعلان کیا ہے تا کہ لوگ یہ سمجھیں کہ یہ صبح کے بھولے تھے جو اب شام کو واپس اپنے گھر جا رہے ہیں مگر عوام جانتے ہیں کہ یہ عادی مجرم ہیں اور یہ اس پہلے دو ہزار چودہ میں بھی یہی کھیل کھیل چکے ہیں۔ کسی بھی اجلاس میں شرکت کیے بغیر اور کسی بھی قانون سازی کا حصہ بنے بغیر یہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں کا کروڑوں روپیہ تنخواہوں کے طور پر ہڑپ کرنے کے چکروں میں ہیں۔

ان کی سخت ترین ناقد ہونے کے باوجود میں بطور ایک جمہور پسند، بہرحال پارلیمان میں واپسی کے اعلان کو خوش آئند سمجھتی ہوں اور توقع رکھتی ہوں کہ ان کی جماعت میں جو چند دردمند افراد موجود ہیں وہ ان کو کچھ سیکھ سکھانے کی کوشش لازمی کریں گے چاہے اس کوشش میں ان کا اپنا نقصان ہی کیوں نہ ہو جائے اور اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی واضح کر دینا چاہتی ہوں کہ بحثیت عام پاکستانی میں بھی ان کو صبح کا بھولا تسلیم نہیں کرتی اور بدھوؤں کے گھر لوٹ آنے کے اعلان کا خیرمقدم کرتی ہوں۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

spot_img

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

More from The Thursday Times

error: