بھٹو خاندان کی سیاسی تاریخ خون سے رنگین ہے۔ پاکستان کی سالمیت، ترقی، بقاء اور استحکام کے لیے جتنی قربانیاں بھٹو خاندان نے دی ہیں اسکی مثال اور کہیں نہیں ملتی۔
شہید بینظیر بھٹو 21 جون 1953 کو پیدا ہوئیں، ریڈ کلف کالج اور ہارورڈ یونیورسٹی سے اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بینظیر بھٹو نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے سیاسیات، اقتصادیات اور فلاسفی میں اعلٰی ڈگری حاصل کی۔
بینظیر بھٹو کی زندگی مصائب اور آزمائشوں سے بھرپور تھی، اُنہوں نے کم عمری میں ہی اپنے والد کو ایک فوجی آمر کے ہاتھوں شہید ہوتے دیکھا مگر وہ پیچھے نہ ہٹیں بلکہ پاکستان کے غریب عوام کی محبت میں نہ صرف اپنے والد کے مشن کو جاری رکھنے کا عزم کیا بلکہ پاکستان کو آمرانہ تسلط سے آزاد کروا کر جمہوریت کی طرف گامزن کرنے کا بھی بیڑا اٹھایا۔
بےنظیر بھٹو نے بطور پاکستانی سیاست دان 1988 سے 1990 اور پھر 1993 سے 1996 تک پاکستان کی 11ویں اور 13ویں وزیراعظم کے طور پر خدمات سرانجام دیں اور ایک مسلمان ملک میں جمہوری حکومت کی سربراہی کرنے والی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں۔
چین کے ساتھ دو طرفہ معاہدے کے تحت نیو کلیئر پاور پلانٹ کا قیام، پاکستان میں مزید اسٹیل ملز کے لیے روس کے ساتھ معاہدے، کامن ویلتھ ممالک میں پاکستان کا دوبارہ داخلہ، پاکستان میں سارک کانفرنس کا انعقاد، بھارت کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کی بحالی اور اس کے لیے 1988 میں طے پانے والا وہ غیر جوہری جارحیت کا معاہدہ جس کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کی جوہری تنصیبات پر حملہ نہیں کر سکتے تھے، روسی فوج کا پرامن انخلاء اور افغانستان میں امن کی بحالی کے لیے اقدامات، پاکستان میں جمہوریت کی بحالی، کشمیر کاز کے لیے مہم چلانا اور اسلامی ممالک سے اس پر مشترکہ حمایت حاصل کرنا، دفاعی ٹیکنالوجیز میں خود انحصاری کے ذریعے دفاع کو مضبوط بنانا اور پاکستان میں ہوائی جہاز بنانے کی صنعت کا آغاز کرنا شہید بےنظیر بھٹو کے ایسے اقدامات ہیں جو شدید اندرونی و بیرونی چیلنجز کے باوجود اٹھائے گئے تھے اور انھی اقدامات نے واقعی پاکستان کے مضبوط مستقبل کی نقشہ سازی میں مدد کی۔
بینظیر بھٹو وہ پہلی وزیراعظم تھیں جنہوں نے سیاچن گلیشیئرز کا دورہ کیا، ضربِ مومن فوجی مشقیں انھی کے دور میں شروع کی گئیں، انہوں نے ہی پاکستان میں آزادیِ صحافت کے خلاف تمام کالے قوانین ختم کیے اور اسی طرح پرنٹ میڈیا پر بھی حکومتی کنٹرول ختم ہو گیا، پچھلی حکومتوں کی طرف سے سیاسی مقاصد کے لیے برطرف کیے گئے ٹی وی اور ریڈیو کے ملازمین کو بحال کیا گیا، بیواؤں اور یتیموں کے لیے ماہانہ وظائف مقرر کیے گئے، بیرونِ ملک منڈیوں میں پاکستانیوں کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کیے گئے، فیڈرل یوتھ کونسل کا قیام عمل میں آیا اور پاکستان میں پہلی بار نوجوانوں کے امور کے لیے علیحدہ وزارت بھی قائم ہوئی۔
بینظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں ہی وزارت برائے انسدادِ منشیات کا قیام عمل میں آیا، منشیات کے عادی افراد کی صحتیابی کے لیے ملک بھر میں کلینکس قائم کیے گئے، منشیات کی اسمگلنگ میں نمایاں کمی واقع ہوئی، ملک کے ہر شہر اور قصبے میں جدید سڑکوں کی تعمیر کی گئی، تیل اور گیس کی پیداوار میں 22 فیصد اضافہ ہوا، ملک بھر میں لاکھوں صارفین کو گیس کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا اور 3.88 بلین روپے کی لاگت سے 3 بڑے صنعتی منصوبوں کی بنیاد رکھی گئی جس میں ایک پیٹرو کیمیکل پروجیکٹ اور ٹویوٹا کرولا پلانٹ سے 580 ملین روپے کی سرمایہ کاری بھی شامل تھی۔
کراچی سٹاک ایکسچینج میں تاریخی اضافہ، بدعنوانی کی حوصلہ شکنی کے لیے سونے کی درآمد پر پابندی کا خاتمہ، مہنگائی کی شرح 9 فیصد سے کم ہو کر 5 فیصد، پیپلز پروگرام کے تحت مفت سائیکلوں کی تقسیم، پاکستان کے ٹیلی کام سیکٹر میں بےمثال ترقی، صرف ایک سال میں 64400 نئی ٹیلی فون ایکسچینج لائنیں، 99391 ٹیلی فون کنکشنز اور 14 اضافی شہروں کو ٹیلی فون کے ذریعے منسلک کرنا بھی بینظیر بھٹو کی ہی شاندار حکومتی کارکردگی کا حصہ تھا۔
بلوچستان کی ان ٹیکسٹائل ملز کو دوبارہ کھولنا جو 1983 میں بند کر دی گئی تھیں، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک سال میں 4000 سے زائد دیہاتوں کو بجلی کی فراہمی، بجلی کے کنکشن کے لیے درخواست دینے والے کو 35 دن یا اس سے کم وقت میں کنکشن کی فراہمی، پاور سیکٹر میں پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ افزائی، سیلاب سے فصلوں اور کسانوں کی املاک کو پہنچنے والے نقصان کی روک تھام کے لیے دور دراز کے علاقوں میں سیلاب پر قابو پانے کیلئے ضروری اقدامات اور فرسٹ وومن بینک کا انعقاد بھی بینظیر بھٹو کے ناقابلِ فراموش اقدامات تھے۔
اس کے علاوہ صنفی ترقی اور خواتین کے مخصوص مسائل کو حل کرنے کے لیے سب سے پہلے خواتین کی وزارت کا قیام، زمین کو نمکیات سے صاف کرنے کی سکیمز، تین سال میں لوڈ شیڈنگ کے مکمل خاتمے کی حکمتِ عملی، ملک بھر میں 445 پوسٹل آفسز کا افتتاح اور کراچی میں پورٹ قاسم کی توسیع جیسے کام بھی انھی کے کارنامے ہیں۔
کراچی اسٹیل ملز کو پہلی بار 1989 میں انھی کے دورِ حکومت میں منافع بخش بنایا گیا تھا جبکہ ہیوی مکینیکل کمپلیکس بھی خسارے میں چلنے والے ادارے سے ایک منافع بخش ادارہ بنا۔ مختصر مدت میں بینظیر بھٹو کی یہ خدمات تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی اور انہیں غریبوں کے حقوق کے لیے لڑنے والی ایک سیاسی لیڈر کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔