اسلام آباد—راولپنڈی کے علاقہ چاکرا میں 11 جولائی کو محمد مسعود نامی ایک شخص نے قرض دینے والی آن لائن ایپ سے تنگ آ کر خودکشی کر لی، محمد مسعود نے مبینہ طور پر گلے میں پھندہ ڈال کر خود کشی کی جبکہ خودکشی سے قبل بیوی کے نام اپنے آخری پیغام میں کہا کہ ”میں نے سود کی مد میں کئی لوگوں کے کے پیسے دینے ہیں، انہوں نے میرا جینا حرام کیا ہوا ہے، نہ میں آپ کے قابل ہوں اور نہ بچوں کے قابل ہوں، میرے پاس اور کوئی آپشن نہیں تھا، مجھے معاف کر دینا“۔
محمد مسعود کی بیوہ نے ایک ویڈیو بیان میں بتایا کہ ان کے شوہر کی نوکری 6 ماہ پہلے ختم ہو گئی تھی، انہوں نے گھر کا کرایہ دینے کیلئے ایک آن لائن ایپ سے قرض لیا مگر کچھ دنوں میں ہی ایپ والوں کی طرف سے انہیں تنگ کرنا شروع کر دیا گیا، محمد مسعود کو دھمکیاں دی گئیں اور بلیک میل کیا گیا کہ ان کے موبائل کا پرسنل ڈیٹا پبلک کر دیا جائے گا، حالات اس قدر پریشان کن ہوتے چلے گئے کہ بالآخر ان کے شوہر نے خودکشی کر لی۔
اس خبر نے قرض دینے والی آن لائن ایپس کے متعلق پاکستان میں ایک نئی بحث کو جنم دیا کہ یہ آن لائن ایپس، جو عام شہریوں کو اس قدر پریشان کرتی ہیں کہ لوگ تنگ آ کر خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، کیسے کام کرتی ہیں، ان کی قانونی حیثیت کیا ہے اور انہیں کام کرنے کی اجازت کون دیتا ہے۔ مزید برآں، انہیں ریگولیٹ کرنے کیلئے کون اور کیا کام کر رہا ہے۔
یہ واقعہ منظرِ عام پر آنے کے اگلے دن ایف ائی اے سائبر کرائم راولپنڈی کی ٹیم نے متاثرہ خاندان کے گھر کا دورہ کیا جس کے بعد اسلام آباد کے علاقہ ”جی ایٹ“ میں FIA نے دو چھاپے مارے، ان چھاپوں میں متعدد لیپ ٹاپس اور کمپیوٹرز قبضہ میں لیے گئے جبکہ FIA کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سائبر کرائم ٹیم نے متاثرین کو موصول ہونے والی کالز کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے اور ان کالز کا ریکارڈ بھی حاصل کیا جا رہا ہے۔
ایف ائی اے نے اس حوالہ سے کارروائی کرتے ہوئے بلیک میلنگ میں ملوث 9 ملزمان کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے جبکہ گرفتار ہونے والے ملزمان نے شہریوں کو بلیک میل کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں روزانہ کی بنیاد پر شہریوں کو کال کرنے کا ٹارگٹ دیا جاتا تھا، آن لائن کمپنی میں مختلف سیکشنز بنے ہوئے تھے، متاثرہ شہریوں کے دوست اور ان کے رشتہ داروں کو کالز کی جاتی تھیں جبکہ ان دفاتر میں ٹارچر کالز سے متعلق ایک علیحدہ سیکشن بنا ہوا تھا۔
ایف آئی اے کے مطابق ملزمان نے بتایا کہ ہر سیکشن کو کالز کرنے کیلئے مختلف نوعیت کے الگ الگ شعبے دیئے جاتے تھے، لون ایپس کے ذریعے ذاتی ڈیٹا تک رسائی حاصل کی جاتی تھی جبکہ اس ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے متاثرہ شہریوں کو ہراساں کیا جاتا تھا۔ ایف آئی اے کے مطابق چھاپوں کے دوران بڑی تعداد میں دستاویزات، کمپیوٹرز، لیپ ٹاپس اور سمز برآمد کی گئی ہیں۔
ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن سے غیر قانونی لون ایپس کی معلومات لی جا رہی ہیں اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ایپس کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی، غیر قانونی لون ایپس کو بلاک کرنے کیلئے پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کو درخواست بھی دی جائے گی اور ان کی تشہیر کو بھی روکا جائے گا۔
پاکستان میں قرض دینے والی آن لائن ایپس کے متاثرین کے مطابق ان ایپس میں سے کچھ کا طریقہ کار یوں ہے کہ وہ شہریوں کو 30 روز کیلئے 20 فیصد یا اس سے زائد سود پر 50 ہزار روپے تک کا قرض فراہم کرتی ہے، 30 روز میں قرض ادا نہ کیے جانے کی صورت میں روزانہ کی بنیاد پر تین فیصد اضافی سود لاگو کیا جاتا ہے اور یوں رقم 50 ہزار ہونے کی صورت میں ایک ماہ میں بڑھ کر ایک لاکھ کے قریب جا پہنچتی ہے، اگلے ماہ دو لاکھ اور پھر چار لاکھ تک پہنچ جاتی ہے جبکہ اس دوران آن لائن ایپس کے نمائندے متاثرہ شخص کو فون کالز پر نجی ڈیٹا لیک کرنے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں، ان کی رسائی متاثرہ شخص کے فون میں موجود کانٹیکٹس تک ہونے کی وجہ سے اس کے دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی فون کالز کی جاتی ہیں اور یوں متاثرہ شخص کو معاشرے میں بےعزت کیا جاتا ہے۔
سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کو مئی تک لائسنس یافتہ قرض دینے والی ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے خلاف 415 اور غیر لائسنس یافتہ پلیٹ فارمز کے خلاف 181 ایسی شکایات موصول ہوئیں جبکہ وفاقی پولیس ان معاملات کی تحقیقات کر رہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 28 جون تک گوگل پلے پر پاکستان کی ٹاپ 100 فنانس ایپس میں سے 27 فوری قرض دینے والی ایپس تھیں جن میں سے صرف آٹھ ایپس کو لانچ کے بعد قلیل وقت میں کم و بیش ڈیڑھ کروڑ سے زائد پاکستانیوں نے ڈاؤنلوڈ کر لیا تھا جبکہ اس کا موازنہ اگر پاکستان کے آٹھ بڑے بینکس سے کیا جائے تو ان کی ان لائن ایپس کو صرف 44 لاکھ لوگوں نے ڈاؤنلوڈ کیا تھا۔
قرض دینے والی یہ آن لائن ایپس پہلے سوشل میڈیا پر تیز، آسان اور بروقت طریقوں سے قرضہ دینے کے پرکشش اشتہارات کے ذریعہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ شہریوں کو بغیر کسی دستاویزی کارروائی کے فوری طور پر قرض فراہم کریں گی مگر جیسے ہی کوئی شخص ان میں سے کوئی ایک ایپ ڈاؤنلوڈ کر کے خود کو رجسٹر کرواتا ہے، یہ ایپس اس کے کانٹیکٹس اور تصاویر تک رسائی حاصل کر لیتی ہیں۔ درحقیقت رجسٹر ہونے والا شخص خود ایپ کو اپنے ڈیٹا تک رسائی دیتا ہے مگر زیادہ تر لوگوں کو اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔
اس حوالہ سے فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل سائبر کرائم ونگ احمد اسحاق جہانگیر نے ایک نجی نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ قرض دینے والی 9 نجی ایپس کمپنیز لائسنس یافتہ ہیں مگر لائسنس یافتہ کمپنیز کو بھی کسی شخص کی پکچرز گیلریز اور کانٹیکٹ لسٹس تک رسائی کی اجازت نہیں ہے اور اگر کسی شخص کو ہراساں کیا جاتا ہے تو ایف آئی اے حرکت میں آتی ہے۔
سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے مطابق ادارہ کی جانب سے آن لائن قرض ایپس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور قرض کے خواہشمند افراد کو بار بار بتایا جاتا ہے کہ قرض لینے سے پہلے تمام شرائط کا بغور مطالعہ کریں کیونکہ ان میں بھاری سود، سروس چارجز اور تاخیر سے ادائیگی پر جرمانے بھی لاگو ہوتے ہیں۔