پاکستان میں حالیہ برسوں میں کچھ ایسے واقعات دیکھنے کو ملے ہیں جو تشویشناک رجحان کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ملک کے اہم اداروں میں من پسند تعیناتیوں کے لیے عوامی احتجاج اور خلفشار کا استعمال۔ پہلی مثال اُس وقت سامنے آئی جب مبینہ طور پر ایک سیاسی جماعت کی جانب سے ایک من پسند شخص کی بطور آرمی چیف تعیناتی کے لیے جلاؤ گھیراؤ اور ہنگامہ آرائی کی گئی۔ اب، یہی طریقہ عدلیہ میں اصلاحات روکنے کیلئے استعمال ہوتا نظر آ رہا ہے، سوال اٹھتا ہے کہ کیا ادارے ذاتی یا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں؟
آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے جلاؤ گھیراؤ
پاکستان میں آرمی چیف کی تعیناتی ہمیشہ سے ہی ایک حساس معاملہ رہا ہے، کیونکہ فوج کا حکومت میں اہم کردار رہا ہے۔ کچھ حلقوں نے الزام لگایا کہ جب ماضی میں آرمی چیف کی تعیناتی کا وقت آیا تو عوامی احتجاج اور ہنگاموں کا سہارا لے کر اپنی مرضی کا آرمی چیف تعینات کرانے کی کوشش کی گئی۔ احتجاج کی یہ لہر بظاہر عوامی غم و غصے کا نتیجہ دکھانے کی کوشش کی گئی ، لیکن لیکن درحقیقت اس احتجاج کے پیچھے ایک منظم حکمت عملی کارفرما تھی۔
لاہور میں جھوٹے ریپ کیس کا پروپیگنڈا
حال ہی میں لاہور میں ایک اور افسوسناک واقعہ دیکھنے کو ملا، جہاں ایک طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی کے حوالے سے فیک نیوز پھیلائی گئی۔ اس جعلی خبر کا مقصد عوامی ہمدردی حاصل کرنا اور ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا تھا۔ یہ جھوٹے الزامات اور جھوٹی خبریں سوشل میڈیا پر پھیلائی گئیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے اس واقعہ کے حوالے سے کہا کہ یہ من گھڑت کہانیاں تھیں جن کا کوئی وجود نہیں تھا، اور ان جھوٹی خبروں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔
اس واقعہ نے ظاہر کیا کہ کس طرح جھوٹی خبروں اور الزامات کو معاشرتی اور سیاسی مسائل میں بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے، اور اس کا مقصد معاشرتی خلفشار پیدا کرنا ہوتا ہے۔ لاہور میں احتجاج کا ماحول پیدا کرنے کے لیے جھوٹے واقعات کا سہارا لینا اسی منصوبہ بندی کا حصہ تھا جس کا مقصد اداروں میں من پسند افراد کی تعیناتی کے لیے دباؤ ڈالنا تھا۔
کیا اب عدلیہ کی باری ہے؟
اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہی تاریخ عدلیہ کیلئے دہرائی جا رہی ہے۔ مبینہ طور پر کچھ حلقے عدلیہ میں اپنے من پسند افراد کی تعیناتی کے لیے مختلف طریقوں سے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اس کا مقصد ملک کی عدلیہ کو بھی سیاسی اثر و رسوخ کے تابع کرنا اور اس کے فیصلوں کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنا ہے۔
اداروں کی آزادی کو خطرہ
یہ رجحانات پاکستان کے اداروں کی آزادی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں۔ آئین اور قانون کی بالادستی کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کر سکتا، اور اگر اداروں کو ذاتی یا سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا رہا تو اس سے ملک میں انصاف اور شفافیت کا نظام مزید کمزور ہو جائے گا۔
ایس سی او کانفرنس کی کامیابی اور سازش
حال ہی میں اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کی 23ویں کانفرنس کامیابی کے ساتھ منعقد ہوئی، جس میں دنیا کے اہم رہنماؤں نے شرکت کی۔ یہ کانفرنس پاکستان کے لیے ایک بڑی سفارتی کامیابی ثابت ہوئی، پاکستان کا عالمی سطح پر مثبت تاثر اُبھر کر سامنے آیا۔ کانفرنس کے دوران، پاکستان نے نہ صرف خطے میں معاشی اور سیاسی تعاون کے فروغ کا عزم ظاہر کیا، بلکہ علاقائی امن اور استحکام کو بھی اہمیت دی۔
تاہم، کانفرنس کی اس کامیابی کے ساتھ ہی ملک کے اندر سیاسی ماحول کو خراب کرنے کی کوششیں بھی تیز ہو گئیں۔ لاہور میں احتجاج اور من گھڑت خبریں اسی سازش کا حصہ معلوم ہوتی ہیں جس کا مقصد ملک کی بین الاقوامی سطح پر کامیابیوں کو سبوتاژ کرنا تھا۔ ایسے ہنگامے اور فیک نیوز کا مقصد پاکستان کی مثبت پیش رفت کو روکنا اور اداروں میں انتشار پیدا کرنا ہے تاکہ اہم تعیناتیوں اور عدلیہ کے فیصلوں پر اثر انداز ہوا جا سکے۔
بہت سے لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ملک کے اہم ادارے، چاہے وہ فوج ہو یا عدلیہ، سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہے ہیں؟ اور کیا عوامی احتجاج کا یہ سلسلہ واقعی حقیقی ہے یا کسی خفیہ ایجنڈے کا حصہ؟
پاکستان کو فی الوقت ایک ایسے ماحول کی ضرورت ہے جس میں ادارے آزاد اور خودمختار رہیں، اور ان میں تعیناتیاں میرٹ کی بنیاد پر ہوں نہ کہ سیاسی دباؤ یا احتجاج کے ذریعے۔ یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب عوام اور سیاسی قیادت اس بات کو یقینی بنائیں کہ اداروں کو سیاسی چالوں سے بچایا جائے اور ملک میں آئین کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے۔