سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دے دی

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس کو 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دے دی جو زیرِ التواء مقدمہ کے فیصلے سے مشروط ہونگے، جن ملزمان کو سزاؤں میں رعایت مل سکتی ہے وہ دیگر رہا کیا جائے، سزاؤں پر جیلوں میں منتقل کیا جائے۔

اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دے دی، خصوصی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیرِ التواء مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے 7 رکنی آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلز پر سماعت کی ہے۔ آئینی بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز میں آئینی بینچ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلز پر سماعت کے علاوہ دیگر تمام مقدمات کی سماعت مؤخر کر دی، آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آج صرف سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل والا کیس ہی سنا جائے گا۔

آرمی ایکٹ 1973 کے آئین سے پہلے بنا تھا۔ جسٹس جمال مندوخیل

سماعت کے آغاز میں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ اس نکتے پر دلائل دیں کہ آرمی ایکٹ کی کالعدم دفعات آئین کے مطابق ہیں، کیا آرمی ایکٹ میں ترمیم کر کے ہر فرد کو اس کے زمرے میں لایا جا سکتا ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ پہلے بتائیں عدالتی فیصلے میں دفعات کالعدم کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس پہلو کو بھی مدِنظر رکھیں کہ آرمی ایکٹ 1973 کے آئین سے پہلے بنا تھا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں خرابیاں ہیں۔ وکیل خواجہ حارث

وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں خرابیاں ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے کو اتنا بےتوقیر تو نہ کریں کہ اسے خراب کہیں۔
وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ معذرت خواہ ہوں، میرے الفاظ قانونی نوعیت کے نہیں تھے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ کل بھی کہا تھا کہ 9 مئی واقعات کی تفصیلات فراہم کریں، فی الحال تو ہمارے سامنے معاملہ صرف کور کمانڈر ہاؤس کا ہے، اگر کیس صرف کور کمانڈر ہاؤس تک ہی رکھنا ہے تو بھی آگاہ کر دیں۔
ایڈشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے جواب دیا کہ تمام تفصیلات آج صبح ہی موصول ہوئی ہیں، تفصیلات متفرق درخواست کی صورت میں جمع کرواؤں گا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ جن دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا ہے ان کے تحت ہونے والے ٹرائل کا کیا ہو گا؟ کسی کو 9 مئی سے قبل بھی تو ان دفعات کے تحت سزا ہوئی ہو گی۔
وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ عموماً کالعدم ہونے سے پہلے متعلقہ دفعات پر ہوئے فیصلوں کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
جسٹس مسرت نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو ان ملزمان کے ساتھ تعصب برتنے والی بات ہو گی۔

آرمی ایکٹ فوج کی ملازمت کے قواعد اور ڈسپلن کیلئے بنایا گیا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ افواجِ پاکستان میں کوئی شخص زبردستی نہیں بلکہ اپنی مرضی سے جاتا ہے، فوج میں شامل ہونے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ اس پر آرمی ایکٹ لاگو ہو گا اور آرمی ایکٹ کے تحت بنیادی حقوق میسر نہیں ہوتے، آرمی ایکٹ بنایا ہی فوج کی ملازمت کے قواعد اور ڈسپلن کیلئے ہے۔
وکیل خواجہ حار ث نے کہا کہ فوج میں کوئی بھی جرم کی نیت سے نہیں جاتا، بنیادی حقوق جرم کرنے پر ہی ختم ہوتے ہیں۔

جسٹس مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا اپیل میں سپریم کورٹ صرف اپیل کنندہ کی استدعا تک محدود رہے گی؟ کیا عدالت فیصلے کے دیگر پہلو کا بھی جائزہ لے سکتی ہے؟
جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے کہ فریقین اپنی معروضات تک محدود رہ سکتے ہیں لیکن عدالت نہیں۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ یہ معاملہ سنگین ہے، میں مطمئن ہونا چاہتا ہوں۔
وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے مؤقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 83 اے اگر بنیادی حقوق فراہم نہیں کرتا تو اسے ملٹری کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ یہاں بات بنیادی حقوق کی نہیں ہو رہی، سویلینز اور نان سویلینز کی ہو رہی ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو سویلینز کورٹ پر اعتماد نہیں ہے؟

جسٹس امین الدین خان نے وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ آپ مزید کتنا وقت لیں گے؟
وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ ابھی دلائل میں مزید کچھ وقت لگ جائے گا۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ موسم سرما کی تعطیلات کے بعد تک کیس ملتوی کر دیتے ہیں، جنوری کے پہلے ہفتے یہ کیس ختم ہوا تو 26ویں آئینی ترمیم کا کیس دوسرے ہفتے سنیں گے۔

آج کی سماعت کا حکم نامہ

سماعت کے اختتام پر آئینی بینچ نے کیس میں آج کی سماعت کا آرڈر جاری کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کو ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دے دی۔

آئینی بینچ نے خصوصی فوجی عدالتوں کو 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دے دی اور کہا کہ خصوصی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیرِ التواء مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوں گے، جن ملزمان کو سزاؤں میں رعایت مل سکتی ہے وہ دے کر انہیں رہا کیا جائے، جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا انہیں سزا سنانے پر جیلوں میں منتقل کیا جائے۔

آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے واضح کیا کہ فوجی عدالتوں سے سزاؤں کے خلاف ہائی کورٹس میں اپیل کا حق انٹرا کورٹ اپیلز کے فیصلے تک معطل رہے گا، ہائی کورٹس میں اپیل کی مدت حتمی فیصلہ کے بعد شروع ہو گی، امید ہے کہ سویلنز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا مقدمہ جنوری میں مکمل ہو جائے گا۔

سماعت ملتوی

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلز پر سماعت موسم سرما کی تعطیلات کے بعد جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کر دی۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

More from The Thursday Times

error: