پیرس (تھرسڈے ٹائمز) — فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے مشرقِ وسطیٰ میں دیرپا اور منصفانہ امن کے لیے فلسطین کو تسلیم کرنے کا تاریخی اعلان کردیا۔ فرانسیسی صدر کا کہنا ہے کہ فرانس رواں سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران ریاستِ فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کرے گا۔
صدر میکرون کا کہنا تھا کہ فلسطینی عوام طویل عرصے سے ظلم، بے دخلی، اور انسانی المیے کا شکار ہیں، اور اب وقت آ چکا ہے کہ عالمی برادری ایک واضح اور دلیرانہ قدم اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ “امن ممکن ہے، لیکن اس کے لیے فوری جنگ بندی، تمام مغویوں کی رہائی، اور غزہ کے عوام کے لیے بڑے پیمانے پر انسانی امداد ناگزیر ہے۔”
Consistent with its historic commitment to a just and lasting peace in the Middle East, I have decided that France will recognize the State of Palestine.
I will make this solemn announcement before the United Nations General Assembly this coming September.… pic.twitter.com/VTSVGVH41I
— Emmanuel Macron (@EmmanuelMacron) July 24, 2025
انہوں نے زور دیا کہ حماس کو غیر مسلح کرنا، غزہ کو محفوظ بنانا اور ازسرِنو تعمیر کرنا اس عمل کا لازمی جزو ہے۔ ساتھ ہی ایک ایسی آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لانا ہوگا جو نہ صرف قابلِ عمل ہو بلکہ اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے خطے میں استحکام کا ذریعہ بھی بنے۔
فرانسیسی صدر کا کہنا تھا کہ یہ صرف فلسطینی عوام کا مقدمہ نہیں، بلکہ یہ ہماری اجتماعی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ فرانسیسی عوام مشرقِ وسطیٰ میں امن کے خواہاں ہیں، اور یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری ہم سب پر ہے کہ امن ممکن ہے۔
انہوں نے فلسطینی صدر کو خط لکھ کر اس فیصلے سے آگاہ کیا اور واضح کیا کہ یہ اقدام باہمی اعتماد، شفافیت اور عزم پر مبنی ہوگا۔ انہوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ فرانس کا یہ قدم دوسرے یورپی ممالک کے لیے بھی ایک مثال بنے گا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق، فرانس کا یہ فیصلہ عالمی منظرنامے پر ایک بڑی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے، جس سے دو ریاستی حل کے تصور کو نئی جان مل سکتی ہے اور فلسطینی عوام کی ریاستی حیثیت کو عالمی سطح پر قانونی حیثیت حاصل ہو سکتی ہے۔
صدر میکرون کے اس جرات مندانہ اقدام نے خطے میں نئی سفارتی حرکیات کو جنم دیا ہے، جہاں ایک طرف امید کی کرن روشن ہوئی ہے، وہیں دوسری جانب اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے شدید ردعمل بھی سامنے آنے کا امکان ہے۔
فرانس کا یہ اعلان ثابت کرتا ہے کہ جب عالمی ضمیر بیدار ہو، تو تاریخ کا دھارا بھی موڑا جا سکتا ہے۔