بنگلور (تھرسڈے ٹائمز) — بھارتی ائیر چیف امر پریت سنگھ کی پریس کانفرنس کے سرکاری اعلامیہ میں پاکستانی طیاروں کی تباہی، اُن کی اقسام یا ماخذ کا کوئی ذکر نہیں، ایس 400 کے کردار اور ریکارڈ توڑ حملے کا حوالہ بھی موجود نہیں جبکہ جنگی محاذ کے دعوؤں کی جگہ فضائی طاقت پر مبنی ایک معمولی سے بیان نے لے لی ہے۔
بھارتی فضائیہ کی جانب سے ائیر چیف مارشل امر پریت سنگھ کے 16ویں ائیر چیف مارشل ایل ایم کترے میموریل لیکچر کے کلیدی خطاب میں اُن آپریشنل تفصیلات کو خاص طور پر نظر انداز کیا گیا ہے جو میڈیا کی حالیہ سرخیوں پر حاوی رہی ہیں جبکہ بین الاقوامی اور ملکی ذرائع ابلاغ — جو اسی خطاب کا حوالہ دے رہے تھے — نے یہ رپورٹ کیا کہ امر پریت سنگھ نے مئی میں ہونے والی پاک بھارت جھڑپوں کے دوران بھارتی فضائیہ کی جانب سے پاکستان کے 6 فوجی طیارے مار گرائے جانے کا دعویٰ کیا تھا جن میں 5 لڑاکا طیارے اور ایک نگرانی کرنے والا جہاز شامل تھا جبکہ 300 کلومیٹرز کے ریکارڈ توڑ فاصلے پر ایس 400 کے ذریعہ ہدف کو نشانہ بنایا جانا بھی شامل تھا — تاہم سرکاری طور پر پریس انفارمیشن بیورو (پی آئی بی) کے بیان میں اِس نوعیت کی کسی بھی تفصیل کا ذکر نہیں ہے۔
پی آئی بی کی جانب سے 9 اگست کو جاری کی گئی سمری میں تقریب کو — جو ہندوستان ایرو ناٹکس لمیٹڈ کے بنگلور کیمپس میں منعقد ہوئی — ایک یادگار اجتماع کے طور پر پیش کیا گیا۔ اِس کا متن فضائی طاقت کی برتری، سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان ہم آہنگی اور تیاری و تحقیق کی اہمیت جیسے موضوعات پر مرکوز تھا جبکہ دشمن کے نقصانات کے حوالہ سے کوئی بھی فہرست پیش کرنے سے گریز کیا گیا۔
پریس انفارمیشن بیورو (پی آئی بی) کے ورژن میں تباہ کیے گئے دشمن طیاروں کی تعداد کا کوئی ذکر نہیں ہے اور جنگ میں حصہ لینے والے طیاروں کی کسی قسم کا بھی ذکر نہیں ہے جبکہ یہ ذکر بھی موجود نہیں کہ وہ پاکستانی تھے۔ ایس 400 نظام — جسے میڈیا نے ریکارڈ توڑ حملہ کے آلہ کے طور پر سراہا تھا — کا ذکر تک نہیں ہے بلکہ یہ اشارہ بھی غائب ہے کہ کسی چیز کو نشانہ بنایا بھی گیا تھا۔ جو کچھ باقی بچا اُس سرد مہری پر مبنی نظریاتی انداز کا خلاصہ کچھ یوں ہے؛ فضائی طاقت کی برتری کی تعریف، سیاسی و عسکری ہم آہنگی کی تحسین، تیاری اور تحقیق و ترقی کی حوصلہ افزائی اور ایک یادگاری نشانی — لیکن ’’رائٹرز‘‘ اور دیگر ذرائع کی جانب سے رپورٹ کردہ 6 پاکستانی طیاروں کا کوئی ذکر نہیں ہے، ایس 400 کے کردار یا غیر معمولی طور پر طویل فاصلے کے حملے کا کوئی حوالہ نہیں ہے اور نہ ہی اہداف کی نوعیت — جیسے کہ ایف 16 یا نگرانی کرنے والے طیارے — چاہے وہ فضاء میں ہوں یا زمین پر — کا کوئی تذکرہ ہے۔
باضابطہ ریکارڈ اور پریس رپورٹس کے درمیان تضاد اِس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ سٹریٹجک کمیونیکیشن میں ایک شعوری انتخاب تھا۔ آپریشنل دعوے — خاص طور پر وہ جو سرحد پار جھڑپوں سے متعلق ہوں — کشیدگی بڑھانے کا خطرہ رکھتے ہیں۔ انہیں نظر انداز کر کے پی آئی بی کا ورژن سفارتی ابہام کو برقرار رکھتا ہے، عوامی فتح پسندی کو بڑھنے سے روکتا ہے اور بیانیہ کو نظریاتی اسباق کی طرف موڑ دیتا ہے — بجائے اِس کے کہ اُسے حربوں پر مبنی کامیابیوں پر مرکوز کیا جاتا۔
یہ طرزِ عمل نیا نہیں — بھارتی دفاعی بیانات اکثر آپریشنل تفصیلات کو مختصر کر کے یا پھر دوبارہ ترتیب دے کر ادارہ جاتی پیغام رسانی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ائیر چیف کی توجہ — جیسا کہ پی آئی بی نے پیش کیا — اِس بات پر مرکوز تھی کہ مشن کس طرح کامیاب ہوا — مسلح افواج کیلئے فریڈم آف ایکشن اور انٹر سروس کوآرڈینیشن کا حوالہ دیتے ہوئے — نہ کہ اِس بات پر کہ کس کس چیز کو تباہ کیا گیا۔
فی الحال — امر پریت سنگھ کے آفیشل اور میڈیا ورژن بیانات ایک دوسرے سے متتضاد ہیں۔ جہاں ’’رائٹرز‘‘ کا بیان جنگی تفصیلات کے ساتھ مخصوص ہے — بشمول طیاروں کی اقسام اور میزائل کی رینج — وہیں پی آئی بی کا ورژن محض رسمی اور یادگاری ہے جو اعداد و شمار سے گریز کرتا ہے۔
یہ اب بھی غیر واضح ہے کہ اعداد و شمار اور دیگر اہم باتوں کو بیان کرنے سے گریز کرنا احتیاط یا پالیسی کا معاملہ تھا یا بعد از تقریر ایڈیٹنگ کا نتیجہ تھا لیکن غیر موجودگی بذاتِ خود معنی خیز ہے؛ فوری خبروں کے اِس دور میں بھی ریاست کے اپنے ذرائع محتاط اور سٹریٹجک لہجے میں بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔