تجزیہ: سعودی عرب اور پاکستان: مدد سے دفاعی شراکت داری تک کا سفر، دی فنانشل ٹائمز

سعودی عرب نے 1998 میں پاکستان کو ایٹمی تجربے کے بعد مفت تیل دے کر پابندیوں سے بچایا تھا، مگر اب منظر بدل چکا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر اس بار مدد لینے نہیں بلکہ دینے ریاض پہنچے جہاں امریکی ہتھیاروں پر انحصار کرنے والا سعودی عرب جوہری پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدے میں داخل ہو چکا ہے۔

لندن (دی تھرسڈے ٹائمز) — برطانوی اخبار دی فنانشل ٹائمز کے مطابق مئی 1998 میں بھارت کے ایٹمی تجربات کے چند ہفتوں بعد پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے ریاض میں اُس وقت کے ولی عہد عبداللہ بن عبدالعزیز کو فون کیا۔ سوال یہ تھا: اگر پاکستان جوابی ایٹمی تجربہ کرے تو کیا سعودی عرب اپنے سُنی بھائی کا ساتھ دے گا؟ جواب کچھ ہی دنوں میں آ گیا۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکے کے بعد سعودی عرب نے پچاس ہزار بیرل تیل روزانہ مفت فراہم کیا تاکہ اسلام آباد مغربی پابندیوں کا سامنا کر سکے۔

نانشل ٹائمز لکھتا ہے اب منظر الٹ گیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے طاقتور فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر اس ہفتے ریاض پہنچے، لیکن اس بار وہ مدد لینے نہیں بلکہ دینے والے تھے۔ سعودی عرب، جو امریکی ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی پر انحصار کرتا ہے، جوہری ہتھیار رکھنے والے پاکستان کے ساتھ ایک دفاعی معاہدے میں داخل ہو رہا ہے۔

فنانشل ٹائمز کے مطابق یہ مشترکہ اعلان ایسے وقت میں ہوا ہے جب مشرقِ وسطیٰ کے طاقت کے توازن کو ایک بے قابو اسرائیل، زخمی ایران اور غیر متوقع امریکہ نے ہلا دیا ہے۔ 9 ستمبر کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اسرائیلی حملے اور امریکی خاموشی نے خلیجی قیادت کو دہلا دیا۔

اگرچہ سعودی حکام اس معاہدے کی ٹائمنگ کو محض اتفاق قرار دے رہے ہیں، لیکن فنانشل ٹائمز لکھتا ہے کہ اس کا مطلب واضح ہے: اگر اسرائیل اور امریکہ خطے کا نقشہ بدل رہے ہیں تو سعودی عرب پرانے دوست کے ساتھ تعلق مزید مضبوط کر رہا ہے۔ بروکنگز انسٹیٹیوشن کے محقق جوشع وائٹ نے کہا کہ یہ معاہدہ مخصوص لمحے کا ردعمل نہیں بلکہ وسیع تر علاقائی تبدیلیوں کا جواب ہے۔

فنانشل ٹائمز کے مطابق یہ دفاعی معاہدہ کئی برسوں کی تیاری کا نتیجہ ہے۔ دونوں ممالک کے عسکری مفادات عشروں سے جُڑے ہیں۔ 1974 میں ذوالفقار علی بھٹو نے شاہ فیصل سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لیے مدد مانگی تھی۔

پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں سعودی کردار مرکزی رہا ہے۔ فنانشل ٹائمز لکھتا ہے کہ 1960 کی دہائی سے پاکستان کو سب سے زیادہ امداد سعودی عرب سے ملی، جو براہِ راست حکومت اور دینی اداروں تک پہنچتی رہی۔ بریگیڈیئر (ر) فیروز خان نے اپنی کتاب میں لکھا کہ 1990 کی دہائی میں سعودی مالی مدد نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو جاری رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

پاکستان نے سعودی عرب کو بھی دفاعی تعاون فراہم کیا۔ 1980 کی دہائی میں ایران عراق جنگ کے دوران پاکستانی فوجیوں نے سعودی سرحد کی حفاظت کی، اور آئی ایس آئی سعودی اور امریکی فنڈ افغان مجاہدین تک پہنچانے کا ذریعہ بنی۔ آج بھی پاکستانی فوجی ماہرین سعودی افواج کی تربیت کرتے ہیں اور ایک سابق پاکستانی فوجی سربراہ ریاض میں قائم انسداد دہشت گردی فورس کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں۔

فنانشل ٹائمز کے مطابق سعودی عرب نے بارہا پاکستان سے جوہری معلومات مانگی لیکن اسلام آباد نے زیادہ تر انکار کیا۔ اس کے باوجود سعودی توقع رکھتا ہے کہ ایک مسلم جوہری طاقت کے ساتھ اس کا عسکری رشتہ مزید گہرا ہوگا۔

یونیورسٹی آف لاہور کے سینٹر برائے سکیورٹی، اسٹریٹیجی اینڈ پالیسی ریسرچ کی ڈائریکٹر، نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ سعودی عرب کے لئے یہ معاہدہ روایتی سکیورٹی گارنٹی، پاکستانی دفاعی ماہرین تک رسائی اور ایک مسلم اکثریتی جوہری طاقت کے ساتھ کھڑے ہونے کی علامت ہے۔

لیکن پاکستان، جو اپنی توجہ بھارت پر رکھتا ہے نہ کہ مشرق وسطیٰ پر، اس معاہدے کے ساتھ محتاط رہنا چاہے گا تاکہ امریکہ، چین، سعودی عرب اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن قائم رکھ سکے۔ فنانشل ٹائمز لکھتا ہے کہ اگر یہ معاہدہ بھارت اور اسرائیل کو قریب لے آئے، پاکستان کے میزائل پروگرام پر مزید پابندیاں لگے، اور بھارت اسلام آباد کو تنہا کرنے کی کوشش کرے تو یہ اسلام آباد کے لئے ایک “اسٹریٹیجک غلطی” بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

بھارت نے کہا ہے کہ وہ اس پیش رفت کے قومی سلامتی پر اثرات کا بغور جائزہ لے گا۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق نئی دہلی اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات میں جلد بازی نہیں کرے گا بلکہ کثیرالجہتی سفارت کاری کو تیز کرے گا۔ دوسری طرف، سعودی عرب یہ شرط لگا رہا ہے کہ بھارت کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات قائم رہیں گے، اور یہ پیغام بھی دے رہا ہے کہ واشنگٹن اب واحد آپشن نہیں رہا۔

فنانشل ٹائمز لکھتا ہے کہ اس معاہدے کی مبہم نوعیت اسرائیل اور امریکہ کے لیے بھی ایک اشارہ ہے کہ یہ پاکستان کے ماضی کے “جوہری بلیک مارکیٹ” کی طرح پھیلاؤ کے خطرات نہیں رکھتا۔ ایک اسرائیلی اہلکار کے مطابق “پاکستانی اپنا بم سعودی عرب کو نہیں دے رہے، لیکن سعودی یہ زور دے کر کہہ رہے ہیں کہ ہمارے دنیا میں اور بھی دوست ہیں”۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

error: