لندن (تھرسڈے ٹائمز) — ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں مغرب کا اثر تیزی سے زوال پذیر ہے۔ برطانوی اخبار دی انڈیپنڈنٹ کے مطابق جب برطانوی حکومت امریکی صدر کی خودسری کو سفارتی مسکراہٹوں سے سنبھال رہی تھی اور کنگ چارلس انہیں ونڈسر پارک میں تفریحی سواری کرا رہے تھے، اسی وقت سعودی عرب اور پاکستان جوہری قربت کی نئی دہلیز پر قدم رکھ رہے تھے۔
مغرب کا زوال اور جوہری قربت
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان حالیہ مشترکہ دفاعی معاہدہ محض ایک رسمی دستاویز نہیں بلکہ خطے میں طاقت کے توازن کی ایک بڑی تبدیلی ہے۔ اس معاہدے کے تحت ریاض عملاً اسلام آباد کی جوہری چھتری میں آ گیا ہے، جس کے بعد اینگلو۔امریکی اثر و رسوخ مشرقِ وسطیٰ اور اس سے آگے ریگستانی ریت میں تحلیل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ دی انڈیپنڈنٹ کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک مغربی دباؤ اور نوآبادیاتی باقیات سے کہیں آگے نکل کر ایک نئے دور کا آغاز کر رہے ہیں۔
تاریخی پس منظر اور بدلتا رویہ
دی انڈیپنڈنٹ لکھتا ہے کہ افغان تنازعے کے دوران برطانیہ پاکستان پر غیر معمولی اثر رکھتا تھا۔ ایک برطانوی جنرل کے مطابق ’’حکومت اور فوج کے ہر درجے پر یہ یقین تھا کہ امریکی دراصل برطانوی مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں‘‘۔ آج وہ وقت ختم ہو چکا ہے۔ ٹرمپ کے 2017ء کے سعودی عرب کے دورے نے خلیجی بادشاہتوں کو آزادانہ خارجہ پالیسی کا راستہ دکھایا، اور اب اسرائیل کے قطر پر حملے اور امریکی خاموشی نے خطے میں واشنگٹن پر اعتماد مزید کم کر دیا ہے۔
ایران، قطر اور پاکستان کا زاویہ
برطانوی اخبار دی انڈیپنڈنٹ کے مطابق ایران کے ساتھ سعودی تعلقات میں بہتری اور امریکی دباؤ کے باوجود ریاض اب سمجھتا ہے کہ پاکستان کی جوہری صلاحیت ہی اس کے تحفظ کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔ ایک سعودی عہدیدار کے بقول ’’یہ ایک جامع دفاعی معاہدہ ہے جو ہر عسکری پہلو کا احاطہ کرتا ہے‘‘۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کو روایتی جنگ کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد کا حق دیتا ہے اور پاکستان کے چھ لاکھ مسلح افواج اور جوہری ہتھیار اس کو مزید طاقتور بناتے ہیں۔
بدلتا ہوا توازن
دی انڈیپنڈنٹ کے مطابق پاکستان اور بھارت عشروں سے جنگ یا جنگ کے دہانے پر رہے ہیں۔ سعودی مالی اور عسکری پشت پناہی کے بعد پاکستان خود کو زیادہ محفوظ اور مضبوط محسوس کرے گا۔
مغرب کے لیے لمحۂ فکریہ
’’برطانوی اخبار دی انڈیپنڈنٹ کے مطابق کے مطابق ٹرمپ کی غیر متوقع پالیسیوں اور مغربی دوہرے معیار نے اس معاہدے کو تیز کیا۔ عراق پر حملے، ماورائے عدالت ہلاکتیں اور غزہ پر امریکی ویٹو نے مغربی جمہوریتوں کے اخلاقی موقف کو کمزور کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب کوئی بھی حکمران یہ نہیں مانے گا کہ واشنگٹن یا لندن ان کی حفاظت کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔
یہ معاہدہ صرف عسکری تعاون نہیں بلکہ ایک نفسیاتی پیغام ہے: مغربی ضمانتوں پر اب بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ خطے میں طاقت کے مراکز تیزی سے بدل رہے ہیں اور مغرب کا اجارہ دارانہ ماڈل متروک ہوتا جا رہا ہے۔ اگر واشنگٹن اور لندن نے اپنی پالیسیوں میں سنجیدہ نظرِ ثانی نہ کی تو آنے والے برسوں میں مزید ممالک ریاض اور اسلام آباد کی طرح نئے راستے اختیار کر سکتے ہیں۔