تجزیہ: پاکستان اور سعودی عرب کا نیا دفاعی معاہدہ، بھارت کیوں پریشان ہے؟ بی بی سی

پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ خطے میں نئی صف بندی کی علامت بن گیا ہے اور بھارت میں تشویش اور بے چینی پیدا کر رہا ہے کیونکہ اس میں باہمی دفاع کی شق شامل ہے۔ یہ معاہدہ پاکستان کو سعودی مالی اور سیاسی پشت پناہی دے سکتا ہے اور طویل مدت میں خطے کی سکیورٹی صورتحال بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

لندن (تھرسڈے ٹائمز) — ریاض میں وزیرِاعظم پاکستان شہباز شریف اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی حالیہ ملاقات اور بغل گیر ہونا بی بی سی کے مطابق علامتی طور پر بہت اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس ملاقات کے فوراً بعد دونوں ملکوں کے درمیان ’’اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے‘‘ پر دستخط ہوئے جسے تجزیہ کار خطے میں نئی صف بندی کی علامت سمجھ رہے ہیں۔

بی بی سی کے مطابق سعودی حکام اس معاہدے کو ’’دیرینہ تعاون کو ادارہ جاتی شکل دینا‘‘ قرار دیتے ہیں، لیکن بھارت میں اسے ایک نیا خطرہ سمجھا جا رہا ہے۔ بھارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوگا تو معاہدے کے تحت دوسرے ملک پر بھی سمجھا جائے گا کہ حملہ ہوا ہے، جو دہلی کیلئے تشویش کا باعث ہے۔

بھارتی سفارت کار اور ماہرین نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان اقتصادی طور پر کمزور ہے مگر سعودی عرب کے ساتھ شراکت داری اسے فوجی اور سیاسی سہارا فراہم کر سکتی ہے۔ سابق بھارتی خارجہ سیکریٹری کانول سبال نے کہا کہ ’’ایک غیر مستحکم پاکستان کو سکیورٹی فراہم کرنے والا ماننا خطرناک ہے اور یہ قدم بھارت کی سلامتی کیلئے نیا چیلنج پیدا کر سکتا ہے‘‘۔

بی بی سی کے مطابق بھارت کی مودی حکومت اس معاہدے کا ’’جائزہ لینے‘‘ اور اس کے اثرات کو سمجھنے کی بات کر رہی ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ اس کی اپنی تزویراتی شراکت داری بھی موجود ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے مفادات اور حساسیتوں کا خیال رکھیں گے۔

تجزیہ کار مائیکل کیگل مین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’’یہ معاہدہ براہِ راست بھارت کو نقصان نہیں پہنچاتا‘‘۔ ان کے مطابق سعودی عرب بھارت کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور فوری طور پر دشمنانہ کارروائی کا امکان نہیں، لیکن اس معاہدے کے ذریعے پاکستان خلیجی سکیورٹی نظام میں گہری جڑیں مضبوط کر رہا ہے۔

بی بی سی کے مطابق سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ سعودی عرب کو وہ کردار دے سکتا ہے جو کبھی سرد جنگ کے دوران امریکہ نے پاکستان کے لیے ادا کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’سعودی عرب اپنی معاشی قوت کے ذریعے پاکستان کو بھارت کے خلاف فوجی طور پر مستحکم بنا سکتا ہے‘‘۔

ماہرین کے مطابق یہ معاہدہ سعودی عرب کے بدلتے ہوئے سکیورٹی وژن کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ احمد عبودو نے بی بی سی کو بتایا کہ ’’یہ سعودی عرب کی اس پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت وہ اپنے دفاعی تعلقات کو متنوع بنانا چاہتا ہے، امریکہ پر انحصار کم کرنا چاہتا ہے اور ایران اور اسرائیل دونوں کو خطرہ سمجھ کر پاکستان کی جوہری قوت سے فائدہ لینا چاہتا ہے‘‘۔

تاریخی طور پر بھی سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات دفاعی اور فوجی شعبوں میں مضبوط رہے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق 1960ء کی دہائی سے پاکستانی افواج سعودی سرزمین پر تعینات رہیں، مکہ واقعہ 1979 میں کچلنے کیلئے پاکستانی کمانڈوز نے مدد کی اور سعودی فضائیہ کے قیام میں پاکستانی افسران نے کردار ادا کیا۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ فوری طور پر بھارت کیلئے براہِ راست خطرہ نہیں لیکن طویل مدتی طور پر یہ خطے کے تزویراتی نقشے کو بدل سکتا ہے۔ سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور پاکستان کے فوجی کردار سے خلیجی سکیورٹی ڈھانچے میں ایک نیا عنصر شامل ہو گیا ہے جسے دہلی گہری نظر سے دیکھ رہا ہے۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

error: