نیویارک (تھرسڈے ٹائمز) — امریکی اخبار بلومبرگ کیمطابق بعد از امریکہ عالمی نظام کی شروعات ریاض اور اسلام آباد سے شروع ہوچکی ہیں، سعودی عرب اور پاکستان کے نئے دفاعی تعلقات آنے والے دور کی جھلک دکھا رہے ہیں۔
بلومبرگ لکھتا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دہائیوں پر محیط گہرے تعلقات کی روشنی میں گزشتہ ہفتے ہونے والا باہمی سلامتی معاہدہ محض رسمی کارروائی نہیں بلکہ ایک تاریخی سنگِ میل ہے۔ یہ پیش رفت اس حقیقت کا اظہار ہے کہ عالمی طاقت کے توازن میں تبدیلی کے باوجود پاکستان اپنی عسکری صلاحیت، سفارتی بصیرت اور اسلامی دنیا میں قائدانہ کردار کے ذریعے نئے اتحاد تشکیل دینے کی اہلیت رکھتا ہے۔
بلومبرگ کیمطابق 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے فوراً بعد پاکستان نے سعودی عرب کو فوجی تربیت اور معاونت فراہم کرنے کا وعدہ کیا اور چند ہی سال میں پاکستانی پائلٹس نے جنوبی یمن کے خلاف سعودی عرب کی فضائی کارروائی میں حصہ لیا۔ یہ تعلقات 1980 کی دہائی میں مزید مضبوط ہوئے جب پاکستان نے مسجدِ حرام کے محاصرے کے بعد سعودی عرب کی سلامتی کیلئے پندرہ ہزار فوجی تعینات کئے اور تبوک میں پاکستانی ٹینک پہنچائے۔ یہ سب اس بات کا مظہر تھا کہ پاکستان ہمیشہ اسلامی ممالک کی سلامتی میں کلیدی کردار ادا کرتا آیا ہے۔
بلومبرگ لکھتا ہے کہ 2015 میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے ایک فیصلہ کر کے خودمختاری کا عملی مظاہرہ کیا، تاہم اس کے باوجود پاکستان نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو کبھی ختم نہیں کیا۔ آج پاکستان ایک بار پھر سعودی عرب کیلئے مرکزی شراکت دار کے طور پر ابھرا ہے، اس بار زیادہ تجربہ کار اور زیادہ خود اعتماد۔
امریکی اخبار کیمطابق پاکستان کی عسکری مہارت، اس کا جوہری پروگرام اور اسلامی دنیا میں اس کا وقار ریاض کیلئے غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ خلیجی ریاستیں امریکہ کی بدلتی ترجیحات سے مایوسی کا شکار ہیں، ایسے میں پاکستان ایک ایسا شراکت دار ہے جو نہ صرف عملی معاونت فراہم کر سکتا ہے بلکہ مسلم دنیا کو مشترکہ دفاع اور تعاون کا نیا ماڈل بھی دے سکتا ہے۔
قطر کی مثال نے یہ واضح کر دیا کہ امریکی موجودگی بھی مکمل تحفظ کی ضمانت نہیں۔ اس پس منظر میں پاکستان اور سعودی عرب کا نیا معاہدہ اس خطے میں زیادہ خود انحصاری اور مشترکہ سلامتی کی طرف ایک قدم ہے۔
بلومبرگ لکھتا ہے کہ بھارت کیلئے یہ منظرنامہ تشویش ناک ہے۔ اس نے اسرائیل اور سعودی عرب دونوں سے قریبی تعلقات قائم کر کے پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش کی مگر آج پاکستان پھر مرکزِ توجہ بن کر ابھرا ہے۔ یہ حقیقت بھارت کیلئے اس کی پالیسی کی ناکامی کا اعتراف ہے کہ اسلامی دنیا پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑ سکتی۔
بلومبرگ کیمطابق پاکستان بھی اب ماضی کے برعکس زیادہ واضح اسٹریٹجک سمت رکھتا ہے۔ امریکہ کے خطے سے ہٹنے اور کابل میں طالبان کے ساتھ اختلافات کے باوجود اسلام آباد اپنی سفارت کاری اور دفاعی صلاحیت کے ذریعے ایک نیا توازن قائم کر رہا ہے۔
امریکی اخبار کیمطابق اس نئے منظرنامے میں سعودی عرب پاکستانی قیادت اور عسکری تجربے کو خطے کی سلامتی کیلئے ناگزیر سمجھتا ہے۔ اسرائیل کو اندازہ ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے میں مزید تاخیر ہوگی، بھارت دیکھ رہا ہے کہ اسلام آباد دوبارہ تنہا نہیں رہا اور ایران خود کو گھرا ہوا محسوس کر رہا ہے۔
یہی وہ خاکہ ہے جو ایک ’’بعد از امریکہ‘‘ دنیا کا ہو سکتا ہے۔ اس میں پاکستان اسلامی دنیا کی قیادت اور خطے میں استحکام کا محور بن سکتا ہے۔ پاکستان کی عسکری اور سفارتی قوت اس ابھرتے ہوئے عالمی منظرنامے میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔