واشنگٹن (تھرسڈے ٹائمز) — امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک غیرمعمولی ایگزیکٹو آرڈر جاری کرتے ہوئے ریاستِ قطر کی سلامتی اور علاقائی خودمختاری کے تحفظ کی باضابطہ یقین دہانی کرائی ہے۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ قطر پر کسی بھی حملے کو امریکہ اپنی سلامتی کے خلاف حملہ تصور کرے گا اور ایسی صورت میں واشنگٹن سفارتی، معاشی اور ضرورت پڑنے پر عسکری طاقت کے ذریعے قطر کا بھرپور دفاع کرے گا۔
یہ اعلان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب حالیہ دنوں اسرائیل نے قطر پر ایک اچانک فضائی حملہ کیا، جس پر دنیا بھر میں شدید ردِعمل دیکھنے میں آیا۔ گذشتہ روز وائٹ ہاوس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودگی میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے قطری وزیراعظم کو ایک ٹیلی فون کال پر باضابطہ معذرت پیش کی، جسے سفارتی حلقے غیرمعمولی پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔
قطر طویل عرصے سے امریکی افواج کی میزبانی کرتا آیا ہے اور مشرقِ وسطیٰ میں واشنگٹن کے لیے نہ صرف فوجی آپریشنز بلکہ سفارتی ثالثی کے میدان میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے۔ افغانستان میں طالبان کے ساتھ مذاکرات ہوں یا دیگر علاقائی تنازعات، قطر نے ہمیشہ خود کو ایک فعال ثالث کے طور پر منوایا ہے۔ اسرائیلی حملے کے بعد ٹرمپ کا یہ ایگزیکٹو آرڈر دراصل قطر کے اس کردار اور خطے میں اس کی بڑھتی ہوئی اسٹریٹجک اہمیت کا باضابطہ اعتراف بھی ہے۔
حکم نامے میں واضح کیا گیا ہے کہ قطر کی سرزمین، اس کی خودمختاری یا اہم تنصیبات پر کسی بھی قسم کی بیرونی جارحیت کو امریکہ اپنی قومی سلامتی کے لیے براہِ راست خطرہ سمجھے گا۔ مزید کہا گیا ہے کہ کسی بھی حملے کی صورت میں امریکہ تمام قانونی اور موزوں اقدامات اٹھائے گا جن میں سفارتکاری، معاشی دباؤ اور ضرورت پڑنے پر عسکری مداخلت شامل ہوگی۔ اس سلسلے میں امریکی وزارتِ جنگ، وزارتِ خارجہ اور خفیہ اداروں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ قطر کے ساتھ مشترکہ منصوبہ بندی جاری رکھیں تاکہ کسی بھی بیرونی جارحیت کا فوری اور مربوط جواب دیا جا سکے۔
ٹرمپ کے حکم نامے نے امریکی وزارتِ خارجہ کو یہ ہدایت بھی دی ہے کہ وہ قطر کو یہ یقین دہانی باضابطہ طور پر دہراتی رہے اور عالمی اتحادیوں کے ساتھ مل کر حفاظتی اقدامات کو ہم آہنگ کرے۔ ساتھ ہی قطر کی ثالثی کی صلاحیتوں کو تسلیم کرتے ہوئے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ مستقبل میں تنازعات کے حل کے لیے قطر کے ساتھ شراکت داری جاری رکھی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قطر کو محض ایک فوجی اڈے کا میزبان سمجھنے کے بجائے امریکہ اسے براہِ راست اسٹریٹجک شراکت دار کی حیثیت دے رہا ہے۔
اس اعلان کو خطے کے لیے ایک بڑی جغرافیائی پیش رفت کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ اسرائیل کے حملے اور اس کے بعد نیتن یاہو کی معذرت نے پہلے ہی سفارتی ماحول کو غیرمعمولی طور پر بدل دیا ہے، ایسے میں امریکہ کا یہ اقدام قطر کے اعتماد میں مزید اضافہ کرے گا۔ قطر نہ صرف توانائی کی عالمی منڈی میں قدرتی گیس کے بڑے سپلائر کے طور پر اپنی پوزیشن مضبوط رکھتا ہے بلکہ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں ایک فعال اور اب باضابطہ طور پر محفوظ کھلاڑی بن کر ابھر رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ کا یہ ایگزیکٹو آرڈر خطے میں نئی صف بندی کا پیش خیمہ ہے۔ امریکہ نے کھل کر قطر کے دفاع کا اعلان کر کے ایک واضح پیغام دیا ہے کہ خطے میں طاقت کا توازن اب نئے خطوط پر استوار ہوگا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ قطر کے تعلقات پر بھی اس پیش رفت کے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، جبکہ ایران کے ساتھ بڑھتے ہوئے تناؤ کے تناظر میں یہ اعلان مزید اہمیت اختیار کرتا ہے۔
اسرائیل کا قطر پر حملہ اور پھر فوری معذرت دراصل اس نئے توازن کی جھلک ہے۔ ماضی میں قطر کو تنہائی کا شکار بنانے کی کوشش کی گئی تھی مگر آج قطر اس مقام پر ہے کہ اسرائیل جیسا ملک بھی اسے نشانہ بنانے کے بعد پسپائی اختیار کرتا ہے اور امریکی صدر اس کے لیے براہِ راست عسکری ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف خلیجی سیاست بلکہ عالمی سفارتکاری میں بھی ایک بڑی تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔