اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — برطانوی اخبار دی فنانشل ٹائمز کے مطابق پاکستان نے امریکی حکام سے رابطہ کیا ہے اور انہیں بحیرۂ عرب کے ساحل پر ایک نئی بندرگاہ تعمیر کرنے اور اس کا انتظام سنبھالنے کی پیشکش دی ہے، جو خطے میں امریکہ کو ایک اہم اسٹریٹجک موجودگی فراہم کر سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ منصوبہ جنوبی بلوچستان کے ساحلی قصبے پسنی سے متعلق ہے، جسے امریکی سرمایہ کاروں کی مدد سے ایک جدید تجارتی ٹرمینل کے طور پر ترقی دینے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ پاکستان کے اہم معدنی ذخائر تک امریکہ کی رسائی ممکن ہو سکے۔ پسنی ایران کی سرحد سے تقریباً سو میل اور چین کی مدد سے بننے والی گوادر بندرگاہ سے صرف ستر میل کے فاصلے پر واقع ہے۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق نے بتایا کہ اگرچہ یہ منصوبہ فی الحال سرکاری پالیسی کا حصہ نہیں ہے، تاہم اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام آباد حالیہ مہینوں میں جنوبی ایشیا میں پیدا ہونے والی جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے نئے راستے تلاش کر رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق یہ تجویز امریکی حکام کے سامنے اُس وقت رکھی گئی جب آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی وائٹ ہاؤس میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات طے تھی۔ تاہم امریکی انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ صدر ٹرمپ یا ان کے مشیروں کے درمیان اس منصوبے پر کوئی باضابطہ بات نہیں ہوئی۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق یہ تجویز ان متعدد اقدامات میں سے ایک ہے جن کے ذریعے پاکستان نے حالیہ عرصے میں واشنگٹن کے ساتھ روابط کو متحرک رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں ٹرمپ کے پیش کردہ غزہ امن منصوبے کی حمایت، افغانستان میں داعش خراسان کے خلاف تعاون، اور امریکہ کے ساتھ معدنیات کے شعبے میں شراکت داری شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جنرل عاصم منیر اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان تعلقات کو امریکی اور پاکستانی سفارتکار “برو میننس” یعنی غیر معمولی قربت سے تعبیر کر رہے ہیں، خاص طور پر اس وقت سے جب ٹرمپ نے مئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کا سہرا اپنے سر لیا تھا۔
منصوبے کے ابتدائی خاکے کے مطابق پسنی بندرگاہ کی لاگت تقریباً 1.2 ارب ڈالر لگائی گئی ہے، جسے جزوی طور پر پاکستانی وفاقی فنڈز اور امریکی ترقیاتی مالیاتی اداروں کی معاونت سے مکمل کرنے کی تجویز ہے۔ بندرگاہ کو ملک کے اندرونی حصوں سے معدنی وسائل کی ترسیل کے لیے نئی ریلوے لائن سے منسلک کیا جائے گا، جس میں خاص طور پر تانبہ اور انٹیمونی شامل ہیں — وہ دھاتیں جو بیٹریوں، آگ سے بچاؤ کے آلات اور میزائلوں میں استعمال ہوتی ہیں۔
فنانشل ٹائمز لکھتا ہے کہ اس منصوبے کو امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی مسابقت کے تناظر میں پاکستان کی “توازن کی حکمتِ عملی” کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اسلام آباد بیک وقت واشنگٹن، بیجنگ، ریاض اور تہران کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پسنی کی جغرافیائی حیثیت امریکہ کو خلیجِ عمان اور وسطی ایشیا تک تجارتی اور سلامتی کے نئے راستے فراہم کر سکتی ہے۔ منصوبے کے خاکے میں کہا گیا ہے کہ “پسنی میں امریکی شمولیت گوادر کے تزویراتی اثرات کا توازن قائم کرے گی اور بحیرۂ عرب میں امریکی اثر و رسوخ کو وسعت دے گی۔”
حالیہ مہینوں میں امریکہ کی جانب سے پاکستان کے معدنیات کے شعبے میں دلچسپی کے آثار بھی سامنے آئے ہیں۔ امریکی ریاست میسوری کی کمپنی یو ایس اسٹریٹیجک میٹلز نے پاکستان کی فوجی انجینئرنگ تنظیم کے ساتھ تعاون بڑھانے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، اور کمپنی کے نمائندوں نے کراچی اور گوادر کے قریب مختلف بندرگاہی حکام سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان اس منصوبے کو امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کے ایک “نئے اقتصادی باب” کے طور پر دیکھ رہا ہے، جو ماضی کی سیکیورٹی بنیادوں پر مبنی شراکت داری کے بجائے سرمایہ کاری اور تجارت پر مرکوز ہوگی۔