راولپنڈی (تھرسڈے ٹائمز) — پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے صحافیوں اور اینکرزپرسنز کے ساتھ طویل نشست میں کہا کہ ملک دشمن عناصر، دہشت گردی اور مجرمانہ نیٹ ورکس کے باہمی روابط کو سیکیورٹی فورسز نے خاطر خواہ حد تک توڑ دیا ہے، تاہم اس کا مکمل خاتمہ نیشنل ایکشن پلان پر مربوط اور نیک نیتی سے عملدرآمد کے ذریعے ممکن ہوگا۔
جنرل احمد شریف نے بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے کہا کہ ریاست اپنے اور عوامی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے دیگر ممالک اور عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات استوار کرتی ہے۔ معدنیات اور کان کنی کے شعبے میں ترقی کے لیے طویل المدتی صبر اور بھاری سرمایہ کاری ضروری ہے، اور پاکستان مختلف ممالک اور کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے اپنے قدرتی امکانات سے فائدہ اٹھائے گا؛ چین، امریکہ اور سعودی عرب سمیت وہ تمام ملک شراکت دار بن سکتے ہیں جو ملکی مفاد اور زمینی حقائق کے مطابق ہوں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے فنانشل ٹائمز میں شائع شدہ آرٹیکل کے بارے میں کہا کہ یہ دراصل پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی تجاویز پر مبنی ہے اور پاکستان کی ساحلی پٹی پر متعدد تجارتی بندرگاہوں کا بڑا پوٹینشل موجود ہے، البتہ ان منصوبوں میں شراکت کے فیصلے صرف قومی مفاد کو پیش نظر رکھ کر کیے جائیں گے۔
غزہ امن معاہدے اور اسرائیل کے تسلیم نہ کرنے کے سوال پر انہوں نے واضح کہا کہ پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی؛ اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جا رہا اور ملکی موقف فلسطینی عوام کو ان کا حق دلوانے تک برقرار رہے گا۔ ترجیح فی الحال وہاں نسلی کشی روکنا اور متاثرہ لوگوں تک ریلیف پہنچانا ہے۔
خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے تازہ واقعات پر بات کرتے ہوئے جنرل احمد شریف نے ناقص گورننس کو ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ ادارہ جاتی کمزوریاں اکثر پاک فوج کے جوانوں کی قربانیوں کی قیمت چکواتی ہیں، اس لیے بہتر انتظام اور ریاستی اصلاحات ناگزیر ہیں۔
نوبل انعام کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو اس اعزاز کے حقیقی حق دار ہوں، اور اگر کسی متنازعہ گروہ یا شخصیت کی حمایت میں نامزدگی کی جاتی ہے تو اس سے نوبل کے معیار اور وقار پر سوال اٹھ سکتا ہے۔
ہائبرڈ نظام کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فوج ایک آئینی ادارہ ہے جو حکومت کے ماتحت کام کرتا ہے، اور جہاں ریاست نے فوج سے مدد طلب کی وہ تعاون آئینی دائرے میں رہا، مثلاً وبائی امراض کے دوران قائم نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر مثبت نتائج کا ثبوت ہے۔ فوج کسی فرد، گروہ یا مخصوص علاقے کی نہیں بلکہ پورے ملک کی خدمت کرتی ہے۔
پاک سعودی دفاعی معاہدے کے حوالے سے انہوں نے واضح کیا کہ یہ کسی تیسری قوت یا اتحاد کے خلاف نہیں بلکہ دونوں ممالک کی دفاعی صلاحیت اور دفاعی پیداوار کو مضبوط کرنے کے لیے ہے تاکہ مستقبل کے دفاعی اور حربی چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکے، اور یہ معاہدہ عوامی جذبات، باہمی اعتماد اور طویل المدتی حکمتِ عملی کا عکاس ہے۔
جنرل احمد شریف نے کہا کہ ریاست اور اس کے ادارے قومی مفاد، سیکورٹی آپریشنز اور بین الاقوامی شراکت داریوں میں شفافیت اور احتیاط کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، اور سیکیورٹی، معاشی ترقی اور عوامی فلاح کے درمیان توازن برقرار رکھنے پر زور دیا۔