پاکستان نے بیانیہ بدل دیا ہے۔ سرحد پر ایک ہنگامہ خیز ہفتے کے بعد اسلام آباد دوحہ میں صرف ایک مطالبے کے ساتھ داخل ہوا کہ افغان سرزمین سے پاکستان مخالف دہشت گردوں کی حمایت اور سہولت کاری ختم کی جائے۔ اس ملاقات کا نتیجہ محض ایک فوٹو سیشن نہیں بلکہ ایک باضابطہ جنگ بندی، تیسرے فریق کی تصدیق اور آئندہ مذاکرات کا طے شدہ نظام الاوقات ہے۔ اس پوری کارروائی کی ترتیب خود یہ ظاہر کرتی ہے کہ طاقت کے استعمال کے بعد سفارتکاری آئی اور یہ سب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا۔
اصل نکتہ یہ ہے کہ کابل امن چاہتا تھا جبکہ پاکستان کردار کی ضمانت مانگ رہا تھا۔ یہی فرق وہ “اسٹریٹجک وضاحت” ہے جس کا اسلام آباد ذکر کرتا ہے۔ جنگ بندی صرف بندوقوں کو خاموش کرتی ہے لیکن کردار کی یقین دہانی احتساب کی بنیاد رکھتی ہے۔ اس لیے اصل اہمیت مقام یا ماحول سے نہیں بلکہ تصدیق کے عمل سے ہے۔
پاکستان کی جامع حکمت عملی نے ان مذاکرات کی بنیاد رکھی۔ سرحد پر دباؤ، بارڈر مینجمنٹ میں سختی اور پناہ گزینوں سے متعلق واضح پالیسی سب ایک ہی مقصد کے لیے تھیں کہ مراعات اور نتائج صاف طور پر سمجھ آ جائیں۔ طاقت نے میز تیار کی، ریاستی حکمت نے اس پر نظام رکھا۔ نتیجہ ایک ایسا تحریری معاہدہ ہے جس میں دونوں فریقوں نے دشمنانہ کارروائیوں سے گریز، دہشت گرد گروہوں کی حمایت ختم کرنے، نگرانی کے نظام قائم کرنے اور آئندہ ملاقات پر اتفاق کیا ہے۔
ہمیشہ کی طرح کچھ لوگ کہیں گے کہ کچھ نہیں بدلا لیکن وہ اس تبدیلی کو نہیں سمجھ رہے جو ہو چکی ہے۔ دوحہ میں عوامی سطح پر کیے گئے وعدے، واضح دستخط کنندگان اور معتبر ثالثوں کی موجودگی نے اس عمل کو مضبوط بنایا ہے۔ آئندہ اگر تنازعہ پیدا ہوا تو یہی ثالث حقائق کی تصدیق اور اقدامات کی ترتیب طے کریں گے۔ یہی طریقہ استحکام کو معمول میں بدل دیتا ہے۔
پاکستان کا بیانیہ غیر معمولی طور پر منظم ہے۔ اسلام آباد بار بار واضح کرتا ہے کہ اس نے کابل سے بات چیت کے دروازے کبھی بند نہیں کیے بلکہ صرف دہشت گردوں سے مذاکرات ختم کیے۔ یہ محض داخلی سیاست نہیں بلکہ مستقبل کی سفارتکاری کا معیار طے کرتا ہے۔ اصول سادہ ہے کہ حکومتوں سے بات کی جائے اور کالعدم گروہوں کے خلاف قانون، انٹیلی جنس اور کارروائی کے ذریعے جواب دیا جائے۔ یہی وہ ترتیب ہے جو وقتی سکون کو پائیدار استحکام میں بدل سکتی ہے۔
ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ دوحہ میں کابل نے پہلی بار تیسرے فریق کے سامنے تسلیم کیا کہ افغان سرزمین پاکستان مخالف گروہوں کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔ ماضی میں پاکستان پر داعش کی حمایت کے الزامات اب غائب ہیں۔ بعض اوقات خاموشی بھی دستخط جتنی معنی خیز ہوتی ہے۔ یہ اعتراف اس بات کا اشارہ ہے کہ اب اصل توجہ ٹی ٹی پی اور اس کے اتحادیوں پر ہے۔
پاکستان نے چہرہ بچانے کا موقع دیا اور اصل بات برقرار رکھی۔ دونوں فریقین نے تفصیلی شقوں کو خفیہ رکھا ہے جو منطقی بات ہے کیونکہ جو ممالک سرحد، منڈیاں اور شدت پسندی جیسے مسائل بانٹتے ہیں ان کے لیے خاموشی کمزوری نہیں بلکہ ضرورت ہے۔ معاہدے کا حقیقی امتحان وہ دن ہوں گے جب خیبر، چمن اور کراچی کی شاہراہوں پر سکون نظر آئے گا۔ یہی اصل پیمانہ ہے۔
اسلام آباد نے ایک نیا اصول بھی واضح کر دیا ہے کہ اگر افغان سرزمین سے پاکستان پر حملہ ہوا تو اس کے ذمہ دار کیمپ جائز ہدف سمجھے جائیں گے۔ یہ محض بیان بازی نہیں بلکہ ایک واضح ضابطہ ہے جو دفاعی حکمت عملی کو مضبوط بناتا ہے۔ طاقت اور سفارتکاری کو متوازن رکھنا ہی پائیدار سلامتی کی بنیاد ہے۔
یہ سب پاکستان کو اپنی ذمہ داریوں سے مستثنیٰ نہیں کرتا۔ اسٹریٹجک وضاحت کے ساتھ انتظامی استقامت بھی ضروری ہے۔ سرحدی علاقوں میں بہتر پولیسنگ، مالی نیٹ ورکس پر سخت نگرانی، مہاجرین کی انسانی بنیادوں پر شفاف دیکھ بھال اور ایسی رپورٹس جن سے اتحادی اور ضامن پیش رفت کی تصدیق کر سکیں، یہ سب پاکستان کی اپنی ذمہ داری ہے۔ ایک نظریہ تب ہی قابل اعتماد ہوتا ہے جب وہ عمل کی یکسانیت میں بھی زندہ رہے۔
کابل کی ذمہ داری بھی کم نہیں۔ اگر طالبان حکومت کی حیثیت تسلیم کروانا چاہتے ہیں تو انہیں حکومت کی طرح برتاؤ کرنا ہوگا۔ خودمختاری حق سے پہلے فرض ہے۔ افغان سرزمین کو نجی جنگوں کے لیے استعمال ہونے سے روکنا ریاستی ذمہ داری کا بنیادی اصول ہے۔ استنبول کا اجلاس یہ جانچنے کا موقع ہوگا کہ کیا کابل طرزِ عمل کو کارکردگی میں بدل سکتا ہے۔ معیار واضح ہے کہ کم حملے، کم جنازے اور کم بہانے۔
پاکستان کا بیانیہ مضبوط اور شواہد پر مبنی رہنا چاہیے۔ “ہم نے مانگا، ہمیں ملا” ایک سادہ پیغام ہے، “ہم نے وعدہ کیا، ہم نے تصدیق کی” اس سے بھی زیادہ موثر ہے۔ پاکستان کو اپنے بیانیے میں شفافیت رکھنی ہوگی۔ جو شائع کیا جا سکتا ہے وہ شائع کیا جائے، جو ناپا جا سکتا ہے وہ ناپا جائے، ثالثوں کو شواہد دکھائے جائیں اور بڑے حملوں کی غیر موجودگی خود بولنے دی جائے۔ دنیا کو بیانات نہیں بلکہ نتائج چاہیے۔
بھارت کے لیے یہ دوحہ معاہدہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ دو مسلم ہمسایہ ممالک نے قطری اور ترک سرپرستی میں ضابطہ جاتی نظام آزمایا ہے جس نے پراکسی تماشے کی جگہ شواہد پر مبنی سفارتکاری کو دی ہے۔ اس بار اسلام آباد نے واضح کر دیا ہے کہ دراڑ ڈالنے کی ہر کوشش اب سفارتی لاگت کے ساتھ آئے گی۔ شور ضرور رہے گا مگر توازن بدل چکا ہے۔
آگے کا مرحلہ واضح ہے۔ انٹیلی جنس افسران فہرستوں کا تبادلہ کریں گے، بارڈر کمانڈرز رپورٹس شیئر کریں گے، ثالث پیش رفت کا جائزہ لیں گے اور سیکیورٹی کے بہتر ہونے کے ساتھ چمن اور طورخم کے راستوں سے تجارت دوبارہ شروع ہوگی۔ مقصد تماشا نہیں بلکہ تسلسل ہے۔ کامیاب سلامتی پالیسی وہی ہے جو نظر نہ آئے، اور کامیابی کی آواز ٹرکوں کے انجنوں سے سنائی دے۔
آخر میں پاکستان نے وہی کیا جو سنجیدہ ریاستیں کرتی ہیں۔ اس نے طاقت، سفارتکاری اور اعتماد کو ایک ہی مقصد کے ساتھ جوڑا۔ طاقت نے سنجیدگی پیدا کی، سفارتکاری نے ڈھانچہ دیا، ضامنوں نے اعتبار بخشا اور ایک غیر متزلزل مطالبے نے مرکز کو مستحکم رکھا یعنی دہشت گردی کے اڈوں کا خاتمہ۔ اگر یہ تسلسل برقرار رہا تو پاکستان نے ردعمل کے چکر کو ختم کر کے ضابطے پر مبنی نظام قائم کر لیا ہے۔ یہ صرف کامیابی نہیں بلکہ خطے کی سیاسی بلوغت کی علامت ہے۔