ریاض (تھرسڈے ٹائمز) — سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے شیخ ڈاکٹر صالح بن فوزان الفوزان کو مملکت کا نیا مفتیِ اعظم مقرر کر دیا ہے۔ یہ تقرری 30 ربیع الثانی 1447 ہجری کو شاہی فرمان کے ذریعے عمل میں آئی۔
شاہی فرمان کے مطابق، شیخ صالح الفوزان کو نہ صرف مفتیِ اعظم کے منصب پر فائز کیا گیا ہے بلکہ انہیں مجلسِ کبار العلما کے چیئرمین اور دارالافتاء و علمی تحقیقات کی جنرل پریذیڈنسی کے سربراہ کے طور پر بھی مقرر کیا گیا ہے۔ انہیں وزیر کے مساوی درجہ دیا گیا ہے اور تمام متعلقہ اداروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس فیصلے پر فوری عمل درآمد یقینی بنائیں۔
یہ تقرری سابق مفتیِ اعظم شیخ عبدالعزیز آل الشیخ کے انتقال کے بعد عمل میں آئی ہے، جو 1999 سے مملکت کے سب سے اعلیٰ مذہبی عہدے پر فائز رہے۔ مفتیِ اعظم کا عہدہ سعودی عرب میں مذہبی اتھارٹی کی بلند ترین علامت سمجھا جاتا ہے، جو فقہی رہنمائی، فتویٰ نویسی اور شریعت کے معاملات میں ریاستی سطح پر مشاورت کا محور ہے۔
شیخ صالح الفوزان 1935 میں صوبہ القصیم کے علاقے الشماسية میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور کئی دہائیوں تک تدریس و فتویٰ کے شعبے سے وابستہ رہے۔ وہ مجلسِ کبار العلما اور مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیقات و افتاء کے رکن کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان کا شمار سعودی عرب کے ممتاز علمائے دین میں ہوتا ہے جنہوں نے فقہی مسائل اور اسلامی تعلیمات پر درجنوں کتب تصنیف کی ہیں۔
مفتیِ اعظم کا ادارہ 1953 میں قائم کیا گیا تھا اور اس کے پہلے سربراہ شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ تھے۔ بعد ازاں اس منصب پر شیخ عبدالعزیز بن باز، اور پھر شیخ عبدالعزیز آل الشیخ فائز رہے۔ اب شیخ صالح الفوزان سعودی عرب کے پانچویں مفتیِ اعظم کی حیثیت سے اس تاریخی سلسلے میں شامل ہو گئے ہیں۔
دارالافتاء اور مجلسِ کبار العلما وہ ادارے ہیں جو مملکت میں شریعت کے اصولوں کی تشریح، قانونی رہنمائی اور عوامی و سرکاری سطح پر دینی مشاورت فراہم کرتے ہیں۔ مفتیِ اعظم ان اداروں کے سربراہ کی حیثیت سے نہ صرف فقہی رائے دیتے ہیں بلکہ مختلف حکومتی اداروں کو مذہبی معاملات میں مشورے بھی فراہم کرتے ہیں۔





