اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — پاکستان نے واضح کیا ہے کہ وہ اپنے عوام کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔ سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت تمام وسائل بروئے کار لائے گی تاکہ دہشت گرد عناصر، اُن کے ٹھکانوں، معاونین اور سہولت کاروں کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکے۔
پاکستان نے کہا ہے کہ کابل میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے اسلام آباد نے بارہا افغان طالبان انتظامیہ سے سرحد پار دہشت گردی کے مسئلے پر بات چیت کی، خاص طور پر اُن گروہوں کے حوالے سے جو بھارت کی پشت پناہی میں پاکستان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں، جن میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) شامل ہیں۔
پاکستان نے افغان طالبان حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ دوحہ معاہدے کے تحت پاکستان اور عالمی برادری سے کیے گئے وعدوں پر عمل کرے۔ تاہم، اسلام آباد کے مطابق طالبان انتظامیہ نے بارہا یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان مخالف دہشت گرد گروہوں کے خلاف مؤثر کارروائی نہیں کی۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت عوامی فلاح کی ذمہ داری سے غافل ہے اور جنگی معیشت پر انحصار کرتے ہوئے خطے کو ایک غیر ضروری تصادم کی طرف دھکیل رہی ہے۔
پاکستان نے کہا ہے کہ اس نے ہمیشہ افغانستان کے عوام کے امن و استحکام کے لیے قربانیاں دی ہیں اور اسی جذبے کے تحت قطر اور ترکی کی درخواست پر طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کیے۔ یہ مذاکرات دوحہ اور بعد ازاں استنبول میں منعقد ہوئے، جن کا واحد مقصد یہ تھا کہ افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکا جائے۔
اسلام آباد نے قطر اور ترکی کی ثالثی اور مخلصانہ کوششوں پر شکریہ ادا کیا، تاہم چار روزہ مذاکرات کے دوران افغان وفد نے واضح شواہد کے باوجود کوئی عملی یقین دہانی فراہم نہیں کی۔ طالبان وفد بارہا اصل نکتے سے ہٹ کر الزام تراشی اور ٹال مٹول کرتا رہا، جس کے باعث مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔
پاکستان نے ایک بار پھر قطر، ترکی اور دیگر دوست ممالک کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد خطے میں امن، استحکام اور باہمی تعاون کے لیے پُرعزم ہے، مگر اگر دہشت گرد حملے جاری رہے تو پاکستان اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے۔





