تجزیہ: امریکہ پاکستان کے ساتھ اربوں ڈالر کے دفاعی و اقتصادی معاہدوں کی تیاری کررہا ہے، امریکی جریدہ فوربز

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ براہِ راست اقتصادی اور دفاعی تعاون بڑھانے کے اقدامات کیے ہیں، جن کے تحت اسلام آباد نے پہلی بار یورینیم سے افزودہ نایاب معدنیات امریکہ بھیجی ہیں، جبکہ دونوں ممالک کے درمیان اربوں ڈالر کا دفاعی معاہدہ بھی قریب ہے۔ یہ معاہدے بھارت کیلئے ایک بڑا اسٹریٹجک دھچکا ہیں۔

واشنگٹن (تھرسڈے ٹائمز) — امریکی جریدے فوربز کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ عالمی سیاست کا رخ ایک نئی سمت میں موڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کا مقصد چین کے اتحادی ممالک کو بیجنگ کے اثر سے نکال کر واشنگٹن کے قریب لانا ہے۔ فوربز کا کہنا ہے کہ روس کی جانب سے یوکرین میں جنگ بندی کی امریکی تجویز کو مسترد کیے جانے کے بعد وائٹ ہاؤس نے اپنی سفارتی توجہ جنوبی ایشیا کی طرف موڑ لی، جہاں ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

فوربز کے مطابق بھارت اور افغانستان کے ساتھ جاری کشیدگی کے باوجود، صدر ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ اقتصادی اور دفاعی تعاون بڑھانے کے لیے براہِ راست اقدامات کیے ہیں۔ اسلام آباد نے حال ہی میں پہلی بار یورینیم سے افزودہ نایاب معدنیات اور اہم دھاتوں کی کھیپ امریکہ بھیجی، جو پانچ سو ملین ڈالر کے دوطرفہ اقتصادی فریم ورک کا آغاز ہے۔ امریکہ پاکستان کے ساتھ اربوں ڈالر کے ایک دفاعی معاہدے کے قریب پہنچ چکا ہے، جس میں جدید فضائی میزائل نظام، معدنی وسائل کی ترقی اور محصولات میں نرمی جیسے اقدامات شامل ہیں۔ فوربز کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے نزدیک یہ محض ایک مفاد پر مبنی سودا ہے، لیکن نئی دہلی کے لیے یہ گزشتہ تین دہائیوں سے قائم امریکہ بھارت شراکت داری کے لیے ایک براہِ راست دھچکا ہے۔

امریکہ اور بھارت کے تعلقات اب تک مستحکم دکھائی دیتے تھے۔ اپریل میں امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے جے پور کے دورے کے دوران دفاع، توانائی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تعاون کو سراہا تھا۔ تاہم فوربز کے مطابق، مقبوضہ کشمیر میں حملے کے بعد حالات اچانک بگڑ گئے بھارت نے آپریشن ’’سندور‘‘ کے تحت پاکستان کی حدود کو نشانہ بنایا اور جواب میں پاکستان نے بھارت کے اندر ٹارگٹس کو نشانہ بنایا۔ واشنگٹن کا ردعمل نئی دہلی کے لیے مایوس کن رہا۔ نائب صدر وینس نے کشیدگی میں کمی کی اپیل کی اور امریکی غیرمداخلت پر زور دیا۔ اگلے روز جنگ بندی ہوئی، لیکن ٹرمپ نے اسے امریکی ثالثی کا نتیجہ قرار دیا، جسے بھارت نے مسترد کیا۔ اس کے برعکس اسلام آباد نے امریکی موقف کی تائید کی اور وزیراعظم شہباز شریف نے صدر ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی تجویز دی۔

فوربز کے مطابق، جب بھارت نے روس سے تیل کی خریداری جاری رکھی تو ٹرمپ انتظامیہ نے بھارتی مصنوعات پر 25 فیصد اضافی محصولات عائد کر دیے۔ صدر ٹرمپ نے بھارتی معیشت کو ’’مردہ‘‘ قرار دیا اور دو سو فیصد تک درآمدی ٹیکس لگانے کی دھمکی دی۔ ساتھ ہی ایچ ون بی ویزا کی فیس ایک لاکھ ڈالر کر دی گئی، جس سے بھارتی ٹیکنالوجی ماہرین سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ یہ اقدامات صرف تجارت تک محدود نہیں بلکہ وسیع تر سفارتی سطح پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔ فوربز کے مطابق، اس سے کواڈ اتحاد اور آئی ٹو یو ٹو جیسے بین الاقوامی سلامتی منصوبوں میں تناؤ بڑھ گیا ہے۔

فوربز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بھارت مخالف عسکری گروہ بھی سرگرم ہیں، جن کی موجودگی بین الاقوامی سلامتی رپورٹس میں درج ہے۔ فوربز کے مطابق پاک۔افغان سرحد پر حالیہ جھڑپوں نے دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ اور دہشت گردی کے خطرات کو نمایاں کر دیا ہے۔ افغان طالبان اب بھی ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کرتے اور سرحدی علاقے منشیات کی اسمگلنگ اور عسکری سرگرمیوں کا گڑھ بنے ہوئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کا چین کے ساتھ گہرا معاشی اور دفاعی تعلق امریکہ کے لیے مزید پیچیدگیاں پیدا کر رہا ہے۔ چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور (سی پیک) میں بیجنگ کی سرمایہ کاری 65 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ سڑکوں، توانائی اور گوادر بندرگاہ کے منصوبے تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں جبکہ چین اب معدنیات، زراعت اور آئی ٹی کے شعبے میں بھی سی پیک کے دائرہ کار کو بڑھا رہا ہے۔ دفاعی میدان میں پاکستان چینی ہتھیاروں، تربیت اور ٹیکنالوجی پر انحصار کرتا ہے۔ فوربز کے مطابق چین کے لیے پاکستان کی بھارت مخالف پالیسی فائدہ ہے، کیونکہ اس سے نئی دہلی کی توجہ ہمالیہ کی سرحدی کشیدگی سے ہٹ جاتی ہے۔

امریکہ اور بھارت کے درمیان شراکت داری پچھلی تین دہائیوں میں تجارت، ٹیکنالوجی اور دفاعی تعاون پر مبنی رہی ہے۔ فوربز کے مطابق اگرچہ موجودہ تناؤ وقتی ہو سکتا ہے لیکن اس کے طویل المدت اثرات گہرے ہوں گے۔ ولسن سینٹر کے مائیکل کوگل مین کے مطابق بھارت کے لیے اصل سوال یہ ہے کہ وہ امریکہ۔پاکستان تعاون کو کس حد تک برداشت کر سکتا ہے بغیر اس کے کہ یہ امریکہ بھارت تعلقات کو نقصان پہنچائے۔ فوربز کا کہنا ہے کہ امریکہ کے لیے بھارت ایک زیادہ پائیدار اور اہم شراکت دار ہے، کیونکہ بھارت کی معاشی وسعت، دفاعی صلاحیت اور انڈو پیسفک خطے میں اس کا تزویراتی کردار واشنگٹن کے لیے زیادہ دیرپا فوائد فراہم کر سکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق واشنگٹن کے لیے بہترین صورت یہی ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں دونوں حریف ممالک بھارت اور پاکستان کے ساتھ توازن برقرار رکھتے ہوئے تعلقات آگے بڑھائے۔ تاہم یہ سوال برقرار ہے کہ کیا مودی حکومت داخلی اصلاحات کر کے بھارت کی اقتصادی اور جغرافیائی صلاحیتوں کو مکمل طور پر استعمال کر پائے گی اور چین کے بڑھتے اثر کو توازن میں لانے کے لیے زیادہ فعال کردار ادا کرے گی۔ فوربز کے مطابق یہ وقت آسان فیصلوں کا نہیں بلکہ توازن برقرار رکھنے کا ہے، کیونکہ جنوبی ایشیا کا امن، استحکام اور مستقبل اب امریکی خارجہ پالیسی کے نئے توازن پر منحصر ہے۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

error: