افغانستان سے ہونے والے مذاکرات ناکام، افغان سرزمین سے حملہ ہوا تو بھرپور جواب دیا جائے گا، خواجہ آصف

افغانستان سے ہونے والے مذاکرات ناکام ہو گئے، افغان سرزمین سے حملہ ہوا تو بھرپور جواب دیا جائے گا۔ افغانستان زبانی یقین دہانی کرانا چاہتا تھا مگر تحریری ضمانت دینے سے گریزاں رہا۔ ان پر اب اعتبار ممکن نہیں رہا، جبکہ ثالثین نے بھی بالآخر ہاتھ کھڑے کر دیے۔

اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری مذاکرات کسی حتمی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہو گئے ہیں، جبکہ ثالثی کا کردار ادا کرنے والے ممالک بھی اپنی کوششوں سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ یہ بات وزیر دفاع خواجہ آصف نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہی۔ خواجہ آصف کے مطابق انہیں اب افغان فریق سے سنجیدہ پیش رفت کی کوئی امید باقی نہیں رہی۔

مذاکرات کی ناکامی کے بعد وزیر دفاع نے سخت ردعمل میں واضح کیا کہ اگر افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف کوئی حملہ ہوا تو اس کا بھرپور اور دو ٹوک جواب دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک افغان سرزمین سے پاکستان پر کوئی حملہ نہیں ہوتا، سیز فائر برقرار رہے گا، لیکن جونہی وہاں سے کسی قسم کی جارحیت یا کارروائی سامنے آئی تو پاکستان سیز فائر کو ختم سمجھتے ہوئے پوری قوت کے ساتھ جواب دے گا۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ افغانستان مذاکرات میں تحریری یقین دہانی سے گریزاں رہا اور محض زبانی وعدوں پر زور دیتا رہا، جو پاکستان کے لیے قابل قبول نہیں۔ انہوں نے دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اب صرف زبانی یقین دہانیوں پر اعتماد نہیں کر سکتا، کیونکہ ماضی کے تجربات نے واضح کر دیا ہے کہ عملی ضمانت کے بغیر اعتماد ممکن نہیں۔

وزیر دفاع نے اس بات پر شدید تشویش ظاہر کی کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ ان کے مطابق اگر افغان حکام یہ مؤقف اختیار کرتے ہیں کہ یہ عناصر ان کے قابو میں نہیں، تو پھر انہیں پاکستان اور اِن دہشت گردوں کے درمیان دیوار بننے کے بجائے راستہ چھوڑ دینا ہوگا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان اپنی سلامتی کے دفاع کے لیے اگر ضروری ہوا تو سرحد پار موجود خطرات کا بھی “تسلی بخش علاج” کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے اور اس سے گریز نہیں کرے گا۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ افغان طالبان کی موجودہ انتظامیہ نے مختلف تنظیموں کے دہشت گرد عناصر کو اپنے ہاں برداشت کر رکھا ہے، جن میں داعش، القاعدہ، آئی ایس آئی ایس اور دیگر گروہ شامل ہیں، اور دہشت گردی کے “تقریباً تمام فرنچائز” افغان سرزمین پر موجود ہیں، جو خطے کے امن کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔

حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد پاکستان کی پالیسی مزید واضح ہو گئی ہے: اگر افغانستان اپنی سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں روکنے میں ناکام رہتا ہے یا ایسے عناصر کے خلاف موثر اقدامات نہیں کرتا، تو اسلام آباد اب یک طرفہ طور پر اپنی سکیورٹی کے تقاضوں کے مطابق فیصلے کرے گا۔

خبریں

More from The Thursday Times

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

error: