تجزیہ: روحانی پردوں کے پیچھے سیاست: عمران خان، بشریٰ بی بی اور اقتدار کی خاموش کہانیاں، دی اکانومسٹ

عمران خان کی سیاست پر بشریٰ بی بی کے غیر معمولی اثر، توہم پرستی پر مبنی فیصلوں، اور فوجی پشت پناہی کے ذریعے اقتدار تک پہنچنے کے بیانیے نے نہ صرف ان کے دعوائے شفاف حکمرانی کو کمزور کیا بلکہ پی ٹی آئی کو ایک شخصی جماعت کے طور پر بے نقاب کیا، جہاں فیصلے ادارہ جاتی طریقہ کار کے بجائے روحانی اشاروں، ذاتی پسند ناپسند اور طاقتور حلقوں کی مرضی سے طے پاتے رہے۔

spot_imgspot_img

لندن (تھرسڈے ٹائمز) — برطانوی جریدہ دی اکانومسٹ کیمطابق 2010 کے وسط میں عمران خان سیاسی طور پر پستی میں تھے۔ 1992 کے کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان کو فتح دلانے کے بعد وہ دہائیوں سے قومی ہیرو تھے، مگر ساٹھ برس کی عمر میں پہنچ کر شہرت، چکاچوند اور سماجی زندگی سب انہیں تشنگی کا احساس دلاتے تھے۔ وہ سیاست میں کوئی بڑا نشان چھوڑنا چاہتے تھے۔

دی اکانومسٹ لکھتا ہے کہ عمران خان کو سیاسی مواقع بھی ملے۔ 1990 کی دہائی کے اوائل میں بڑی سیاسی جماعتوں نے ان کی شہرت سے فائدہ اٹھانے کے لیے انہیں اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی، مگر انہوں نے انہیں کرپٹ سمجھ کر ٹھکرا دیا۔ انہوں نے اپنی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف بنائی، جس کا مقصد سیاست کو صاف کرنا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں سیاست عملاً دو بڑی خاندانی جماعتوں کے گرد گھومتی رہی ہے، اس لیے نئی پارٹی بنا کر انتخاب لڑنا گویا برسوں سیاسی صحرا میں بھٹکنے کے مترادف تھا۔ جب بھی وہ صحافیوں سے ملکی حالات پر بات کرنے بیٹھتے، وہ صرف کرکٹ یا ان کی تازہ ترین محبت کی خبروں میں دلچسپی لیتے۔

برطانوی جریدہ کیمطابق ایک وقت ایسا آیا کہ لگا عمران خان آگے بڑھ رہے ہیں۔ 2014 میں انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف دھرنا دیا، جس پر ان کا الزام تھا کہ انتخابات دھاندلی سے جیتے گئے۔ اسلام آباد کے مرکز میں اس قدر بڑے احتجاج کی اجازت ملنے سے یہ قیاس پھیلا کہ شاید فوج جو بظاہر جمہوری مگر درحقیقت طاقت کا مرکز ہے حکومت کی تبدیلی چاہتی ہے۔ مگر یہ تحریک بھی دم توڑ گئی۔

  پاناما لیکس آنے کے بعد خان نے دوبارہ کوشش کی۔ ان لیکس میں نواز شریف کے بچوں کے نام آئے، بعد ازاں وہ مقدمات میں بری ہوگئے۔ خان مظاہرے لے کر پشاور تک گئے، مگر اسلام آباد کی جانب وہ فیصلہ کن مارچ کبھی نہ ہوا۔ تب سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں کہ شاید عمران خان کا وقت گزر چکا ہے۔

دی اکانومسٹ کے مطابق گھر کی زندگی بھی بے سکونی کا شکار تھی۔ خان کا دوسری بیوی ریحام خان سے تعلق اس حد تک بگڑ گیا کہ وہ ایک ہی کمرے میں رہنا بھی مشکل تھا (بعد میں انہوں نے اس شادی کو اپنی سب سے بڑی غلطی کہا)۔ پھر خان کی زندگی میں ایک ایسی شخصیت داخل ہوئی جس نے ان کی روحانی اور سیاسی جہت دونوں بدل دیں۔

بشریٰ مانیکا جیسا کہ وہ اس وقت کہلاتی تھیں، پنجاب کی ایک شادی شدہ خاتون جنہیں تصوف میں گہری دلچسپی تھی۔ پاکستان میں صوفی روایت میں یہ غیر معمولی بات نہیں کہ لوگ کسی ایسے عام شخص سے روحانی رہنمائی لیں جسے وہ “بصیرت والا” سمجھتے ہیں، اگرچہ ایسے “مرشد” کا عورت ہونا کم دیکھا گیا ہے۔ بشریٰ جنہیں میڈیا “بشریٰ بی بی” کہہ کر پکارتا ہے — اپنے قریبی حلقے کو روحانی مشورے دینے لگی تھیں۔

برطانوی جریدہ کیمطابق عمران خان کا تعارف ان سے ان کی بہن مریم نے کروایا، جو خان کے سیاسی نظریات، قوم پرستانہ، مذہبی اور مغرب مخالف سے اتفاق رکھتی تھیں اور متحدہ عرب امارات میں رہ کر پی ٹی آئی کے لیے کام کرتی تھیں۔ خان اکثر مذہب اور زندگی کے مقصد پر پریشان رہتے، اس لیے مریم نے انہیں اپنی بہن سے بات کرنے کا مشورہ دیا۔

جس وقت بشریٰ جوان تھیں، عمران خان ملک بھر میں ہر گھر کا نام تھے۔ لڑکے ان کی طرح بننے کے خواب دیکھتے، لڑکیاں اُن سے شادی کے۔ ابتدا میں بشریٰ نے عمران خان سے ملنے سے انکار کیا کہ وہ غیر محرم مردوں سے نہیں ملتیں۔ آخر کار ایک فون کال پر آمادہ ہوئیں اور یہیں سے کہانی شروع ہوئی۔ فون کالیں راتوں تک چلتی رہیں۔

خان کے آنے پر بشریٰ کے شوہر خاور مانیکا شروع میں خوش ہوئے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ان کی بیوی اور خان کی قربت نے انہیں تشویش میں ڈال دیا۔ “وہ کہتی تھیں کہ میں ان سے اکیلے بات کرنا چاہتی ہوں،” مانیکا نے بتایا۔ “جب بھی میں اندر جاتا، ایک خاموشی چھا جاتی۔”

دی اکانومسٹ لکھتا ہے کہ مانیکا کے مطابق، ان کی بیوی نے خان کو بتایا کہ انہوں نے مستقبل دیکھا ہے اگر وہ دونوں شادی کر لیں تو عمران خان وزیر اعظم بنیں گے۔ 2017 کے آخر میں بشریٰ نے اپنے شوہر کو طلاق دی اور یکم جنوری 2018 کو خان سے خفیہ نکاح کر لیا۔ خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے شادی سے پہلے بیوی کا چہرہ تک نہیں دیکھا تھا۔ “تصوف میں ایک سفر ہے، مگر میں نے ایسا مقام رکھنے والا کوئی نہیں دیکھا جیسا میری بیوی رکھتی ہے۔

اگر انہوں نے واقعی کوئی پیش گوئی کی تھی تو خان کا اس پر اعتماد اُس وقت اور بڑھ گیا جب چند ماہ بعد وہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ فوج کی حمایت اس کامیابی کا اہم حصہ تھی، مگر عوامی سطح پر بھی خان کا کرپشن مخالف بیانیہ بڑا اثر رکھتا تھا۔

دی اکانومسٹ لکھتا ہے کہ اقتدار میں آ کر عمران خان خان اپنے وعدے پورے نہ کر سکے۔ فوج اور سیاسی طبقے سے تعلقات خراب ہوتے گئے۔ ان کی بیوی نے بھی اتحادیوں اور وزرا کو ناراض کیا۔ ایک وزیر نے کہا: ان کی مداخلت مکمل تھی۔

 میں عدم اعتماد کے ذریعے 2022 میں حکومت گرائی گئی عام خیال یہ تھا کہ فوج نے اس کی راہ ہموار کی۔ خان نے مزاحمت کی، فوج پر تنقید کی اور پھر جیل بھیج دیے گئے۔ حکمراں طبقہ ان کا نام میڈیا پر چلانے سے بھی گریز کرتا ہے، مگر عوام میں ان کی مقبولیت بڑھ گئی۔

دی اکانومسٹ کے مطابق ،اب عمران خان ایک مخمصے میں ہیں، اصولوں پر قائم رہ کر جیل میں رہیں یا فوج سے مصالحت کر کے رہائی پائیں اور اپنی پارٹی کو دوبارہ حکومت کا موقع دیں۔

بشریٰ بی بی بھی جیل میں ہیں۔ پی ٹی آئی کے کچھ لوگ امید رکھتے ہیں کہ شاید وہ خان کو مصالحت پر آمادہ کر سکیں۔ ان کا غیر معمولی سیاسی کردار پاکستان میں کبھی ختم نہ ہونے والی سازشوں، غلط فہمیوں اور صنفی تعصبات کا موضوع بنا ہوا ہے۔

دی اکانومسٹ لکھتا ہے کہ عمران خان کے دوست کہتے ہیں کہ ان کی سادگی نے بشریٰ کو غیر معمولی اختیار دیا۔ دیگر کہتے ہیں کہ پاکستانی سیاست ہی ایسی گہرائیوں اور چھپی ہوئی سازشوں سے بھری ہے۔ متعدد قریبی ساتھیوں اور فوجی شخصیات سے گفتگو سے ایک بات واضح ہوتی ہے: بشریٰ بی بی کی کہانی پاکستان کے نظام کی طرح کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔

دی اکانومسٹ کے مطابق بچپن میں بشریٰ ریاض وٹو اتنی مذہبی نہیں تھیں۔ ان کی پرورش پنجاب کے دیہی علاقے میں ہوئی، جہاں ان کے دادا ایک اثرورسوخ رکھنے والے زمیندار تھے۔ والد نے زمین بیچ کر ایک چائنیز ریستوران کھول لیا۔ کچھ عرصے بعد بشریٰ اور ان کی بہن مریم کو لاہور منتقل کر دیا گیا، جہاں وہ بزرگ رشتہ داروں کے ساتھ رہتی تھیں۔ مریم کے مطابق دونوں نے کوئین میری کالج میں تعلیم حاصل کی، اگرچہ تعجب انگیز طور پر اسکول کے ریکارڈ میں ان کا اندراج موجود نہیں۔

لاہور کا سماجی ماحول اس دور میں بھی بڑا رنگین اور وضع دار تھا۔ وڈیرے، سیاست دان اور جاگیردار ایک دوسرے کے گھروں میں محفلیں سجاتے تھے۔ بشریٰ کا خاندان ان طبقات سے نیچے تھا، مگر نوجوانی میں وہ نسبتاً آزاد خیال محفلوں میں جاتی تھیں۔ ایک سابق گاؤں کے پڑوسی کے مطابق وہ دیہی علاقوں میں دوپٹہ اوڑھنے سے بھی گریز کرتی تھیں۔ “وہ بہت جدید تھیں،” اس نے کچھ ناگواری سے کہا۔

دی اکانومسٹ لکھتا ہے کہ  اٹھارہ برس کی عمر میں بشریٰ کی زندگی نے رخ بدلا اور ان کی شادی خاور مانیکا سے ہو گئی، جو ایک معروف سیاسی خاندان کا بیٹا تھا۔ لاہور کے ایک تیزطرار مبصر کے مطابق: “مانیکا خاندان بڑے زمیندار ہیں، اور وہ نسبتاً نچلے طبقے سے آئی تھیں۔”
شادی نے انہیں آسائشیں، عزت اور بڑا حلقہ دیا، مگر روایتی پابندیاں بھی ساتھ آئیں۔ ایک بڑی جاگیردارانہ حویلی میں بیوی ہونے کا مطلب بچوں کی پیدائش، رشتہ داروں کی دیکھ بھال، اور عملے کی نگرانی تھا۔ بشریٰ نے پانچ بچوں کو جنم دیا۔

مریم کے مطابق یہ شادی خوشگوار نہ تھی۔ وقت کے ساتھ بشریٰ نے تصوف میں پناہ ڈھونڈی۔ وہ پاکپتن کے مشہور صوفی بزرگ بابا فرید کے مزار پر زیادہ وقت گزارنے لگیں۔
بابا فرید کے آستانے پر لاکھوں زائرین مشکلات کے حل کی امید میں آتے ہیں شادیوں کے جھگڑوں سے لے کر قسمت کے مسئلے تک۔ پاکستان میں اسلام کے اس روحانی پہلو کا سماجی اثر بہت گہرا ہے۔

تصوف میں مرشد یا پیر کی حیثیت ہمیشہ سے اہم رہی ہے۔ بڑے صوفی سلسلوں کے وارثین وقت کے ساتھ خود پیر بن گئے۔ کچھ پیر مطالعہ اور ریاضت میں ڈوبے رہتے ہیں، بعض بڑی تعداد میں مرید رکھتے ہیں، کچھ تو سیاست میں قدم رکھ کر قومی اسمبلی تک پہنچ جاتے ہیں۔

دی اکانومسٹ کے مطابقے بشریٰ بی بی اپنے بیس کی دہائی کے آخر تک ایک چھوٹے پیمانے کی پیر بن چکی تھیں—دوستوں اور رشتہ داروں کو مشورے دیتی تھیں۔ وہ پوری رات عبادت کرتی اور تصوف پر کتابیں پڑھتی تھیں۔ خاور مانیکا نے بھی ان کے شوق میں ساتھ دیا، ایک بار لاہور سے پاکپتن تک ننگے پاؤں چل کر۔ یہ سفر ہفتہ بھر میں مکمل ہوا۔ مگر مانیکا خود اعتراف کرتے ہیں: “میری زندگی مختلف تھی۔ میں پارٹیوں والا آدمی تھا۔”

اسی دوران عمران خان، جو اپنی زندگی کے مقصد سے الجھے ہوئے تھے، بشریٰ بی بی سے رجوع کرنے لگے۔ جب یہ خبر پھیلی کہ خان کی ایک نئی خاتون پیر ہیں، کہانی میں نیا موڑ آ گیا۔ خان کا نام ہمیشہ دلکش خواتین سے جوڑا جاتا رہا، اس لیے لوگوں نے فوراً فرض کر لیا کہ یہ بھی کوئی معاشقہ ہے۔ خان بار بار ٹی وی پر کہہ چکے تھے کہ رشتہ خالص روحانی ہے۔

مگر عمران خان بہرحال اس پردہ نشین خاتون سے متاثر تھے جو انہیں اپنی زندگی سنوارنے کا کہتی تھیں۔ ایک انٹرویو میں تو انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے انہیں شادی کی پیشکش کی حالانکہ اس وقت وہ دونوں خفیہ طور پر پہلے ہی رشتے میں بندھ چکے تھے۔

بہت سے دوستوں نے تشویش ظاہر کی۔
پرانے ساتھی مسعود چشتی نے کہا: “وہ کہتا تھا، یہ میری زندگی کی بہترین چیز ہے۔ مگر وہ بہت سادہ لوح ہے اور انسانوں کو پرکھنے میں کمزور۔”
صوفی موسیقار سلمان احمد نے کہا: “وہ اس صوفی ہالے سے آگے دیکھ ہی نہیں پاتا جو وہ (بشریٰ) اپنے گرد رکھتی ہے یہ اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔

دی اکانومسٹ لکھتا ہے کہ عمران خان کے گھر میں بھی بے چینی پیدا ہونے لگی۔ دہائیوں سے ان کے ڈرائیور محمد سفیر نے بتایا کہ نئی بیوی کے آتے ہی ماحول بدل گیا۔ وہ پہلے بھی خان کی شادیوں کے بارے میں خدشات کا اظہار کر چکا تھا۔ اس بار بھی اس نے خان سے کہا: “سر، اس بار آپ نے سوپر بلنڈر کیا ہے۔” خان ہنس کر بات ٹال گئے۔

خاور مانیکا کے بعض رشتہ دار بھی خان کے قریبی حلقے تک یہ پیغام پہنچانے لگے کہ بشریٰ “غیر روایتی” طریقوں میں ملوث ہیں۔ ایک رشتہ دار نے جہانگیر ترین کو بتایا کہ وہ “کالے علم” کا سہارا لے رہی ہیں۔

برطانوی جریدہ کیمطابق پاکستان میں توہمات عام ہیں۔ جیسے برطانیہ میں لوگ میگ پائی کو سلام کرتے ہیں، ویسے ہی یہاں بہت سے لوگ پرندوں کو گوشت ڈال کر بدروحیں دور کرنے کا یقین رکھتے ہیں۔ زرداری کے پہلے دور میں تو ہر روز ان کے گھر میں بکرے کا صدقہ ہوتا تھا، ایک پیر سرکاری مہمانوں سے بھی ملتا تھا۔ اس پر چند خبریں ضرور بنیں، مگر بشریٰ بی بی کے متعلق “جادو ٹونے” کی کہانیاں تو سینکڑوں خبریں، یوٹیوب ویڈیوز اور افواہیں بنیں۔

خان کے سابق ملازمین نے بہت سے واقعات سنائے۔
سفیر کے مطابق بشریٰ بی بی کے آنے کے بعد اسے روز 1.25 کلو بیف لانے کو کہا گیا، جو خان کے سر کے گرد تین بار گھمایا جاتا، کچھ پڑھا جاتا اور پھر چھت پر پرندوں کے لیے پھینک دیا جاتا۔
لال مرچیں جلائی جاتیں تاکہ “بری نظر” دور ہو۔
سیاہ بکرے اور مرغیوں کے سر بھی روز لائے جاتے اور باقیات قبرستانوں میں ڈلوائی جاتیں۔
قریب کے قصائی عظیم رانا نے بھی کہا کہ خان کے گھر سے عجیب آرڈر آتے تھے۔

کچھ ہی عرصے بعد ترین نے یہ سب خان کے سامنے رکھا۔ جب خان نے شادی کی خوشی میں پارٹی لی تو بشریٰ بی بی سفید لباس میں باہر آئیں اور واحد جملہ کہا
“میں نے سفید کپڑے پہنے ہیں تاکہ آپ مجھے کالا جادو کرنے والی عورت نہ سمجھیں۔”

ترین سمجھ گئے کہ اب ان کا سیاسی مستقبل ختم ہو چکا ہے، اور وہ پارٹی چھوڑ گئے۔

وہ واحد نہیں تھے جو بھی تنقید کرتا، اسے فوراً راستے سے ہٹا دیا جاتا۔

دی اکانومسٹ لکھتا ہے کہ خان کی دیرینہ ٹیم کے لوگ بتاتے ہیں کہ وہ فیصلہ سازی سے پہلے امیدواروں کی تصاویر بشریٰ بی بی کو بھیجتے تھے تاکہ وہ “چہرہ پڑھنے” کی اپنی صلاحیت سے رائے دیں۔
ایک موقع پر وہ سفر روکنے پر بھی مصر تھیں، اور جہاز گھنٹوں رن وے پر کھڑا رہا۔

پاکستان میں طاقت کا اصل مرکز فوج ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بشریٰ بی بی سے سخت چڑ رکھتے تھے۔
ایک وزیر نے بتایا: “وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ یہ خاتون کالا جادو کرتی ہے۔ انہیں لگتا تھا کہ خان ان کی بات سے زیادہ بیوی کی سنتے ہیں۔”

اسی دوران  ئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید کا نام بھی گردش میں آیا کہ وہ بشریٰ بی بیآئی کے ذریعے خان پر نفوذ رکھتے تھے۔
ایک مشہور واقعہ یہ ہے کہ جب صحافی طلعت حسین نے سوشل میڈیا پر شادی کے بارے میں سوال اٹھایا تو جنرل فیض نے انہیں فون کر کے کہا: یہ مناسب نہیں۔ وہ اچھا جوڑا ہیں براہِ کرم اس پر بات نہ کریں۔

دی اکانومسٹ لکھتا ہے کہ پاکستان میں ایک بڑی کہانی یہ پھیلی کہ عمران خان کو متاثر کرنے کے لیے پہلے پِیروں کو “پیشگی خبریں” دیتی تھی جیسے کہ کون گرفتار ہونے والا ہے اور وہ یہ خان کو “روحانی کشف” کے طور پر بتاتیں۔ کئی بااعتماد ذرائع نے اس نوعیت کا آپریشن ہونے کی تصدیق کی، اگرچہ یہ واضح نہ ہو سکا کہ آیا بشریٰ خود اس سے آگاہ تھیں یا نہیں۔

وقت کے ساتھ فوج کی عمران خان سے ناراضی بڑھتی گئی، جس میں ایک وجہ بشریٰ بی بی کی موجودگی بھی بتائی جاتی ہے۔
جنرل باجوہ انہیں پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک سابق وزیر نے کہا:
“باجوہ ہمیشہ غصے میں کہتے تھے کہ وہ کالا جادو کرتی ہے۔ باجوہ اس لیے بھی چراغ پا تھے کہ خان ان کی بات سے زیادہ اپنی بیوی کی سنتا تھا۔”

2019 میں خان نے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل عاصم منیر کو صرف آٹھ ماہ بعد ہی عہدے سے ہٹا دیا۔
پاکستانی میڈیا میں یہ افواہ زور سے پھیلی کہ جنرل منیر نے خان کے سامنے بشریٰ بی بی کے مبینہ مالی فائدے پہنچانے کے ثبوت رکھے تھے، جس پر انہیں ہٹا دیا گیا۔
خان نے ہمیشہ اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا کہ عاصم منیر اپنی برطرفی کے بعد “انتقام” لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دوسری جانب عوامی سطح پر بھی خان کی مقبولیت کم ہونے لگی کیونکہ وہ اپنے بلند وبانگ وعدوں پر پورا نہ اتر سکے۔
فیسِل واوڈا نے کہا: “ہم نے پانچ ملین گھروں کا وعدہ کیا تھا، جو بیس سال میں بھی پورا نہیں ہو سکتا تھا، تو پانچ سال میں کیسے؟”

اپریل 2022 میں وہ حقیقت سامنے آ گئی جو پاکستان کے ہر وزیر اعظم کو آخرکار معلوم ہوتی ہے:
فوج جسے ہٹا دینا چاہے، وہ اقتدار میں نہیں رہ سکتا۔

عدم اعتماد کامیاب ہوا، خان نے فوج پر کھل کر تنقید شروع کر دی اور بڑے جلسے کیے۔
نومبر 2022 میں ایک ریلی کے دوران انہیں گولی مار دی گئی۔ فون پر انہوں نے فوری الزام فوج کے اعلیٰ حکام پر لگا دیا کہ وہ انہیں راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔

چند ہفتوں بعد، 24 نومبر 2022 کو، عاصم منیر — وہی سابق ڈی جی آئی ایس آئی — نئے آرمی چیف بن گئے۔
عمران خان بارہا کہہ چکے ہیں کہ انہیں لگا منیر اس خوف سے انہیں جیل میں رکھے گا کہ کہیں خان دوبارہ آ کر اسے برطرف نہ کر دیں۔

مئی 2023 میں عمران خان گرفتار ہو گئے۔ اس گرفتاری کے بعد پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عوام نے فوجی تنصیبات پر حملے کیے۔
خان نے براہِ راست جنرل منیر کا نام لیتے ہوئے کہا کہ “وہ ڈر رہے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی حکومت میں آئی تو انہیں فارغ کر دیا جائے گا۔”

الیکشن 2024 میں فوجی مداخلت کے تمام حربوں سیاسی گرفتاریوں، میڈیا بلیک آؤٹ، پارٹی نشان چھین لینے اور مبینہ دھاندلی کے باوجود آزاد امیدواروں کے ذریعے پی ٹی آئی نے 266 میں سے 93 نشستیں حاصل کر لیں۔
یہ حکومت بنانے کے لیے ناکافی تھا، لیکن حالات کے مقابلے میں ایک حیران کن نتیجہ تھا۔

ادھر فوج اور نئی حکومت خان کے خلاف مقدموں کا سلسلہ چلاتی رہی۔ تین اہم کیسوں میں بشریٰ بی بی کا نام بھی شامل کر لیا گیا جن سب کو پی ٹی آئی سیاسی انتقام قرار دیتی ہے۔

الزام یہ تھا کہ طلاق کے بعد بشریٰ نے عدت پوری کیے بغیر عمران خان سے نکاح کیا، جو مذہبی اصول کے خلاف تھا۔
عدالت میں ان کے حیض کے چکر تک زیرِ بحث آئے، جس پر عوامی سطح پر شدید ناپسندیدگی ظاہر کی گئی۔
انہیں سات سات سال کی سزا دی گئی، جو بعد میں اپیل میں ختم ہو گئی۔

الزام تھا کہ ایک بڑے رئیل اسٹیٹ جرمانے کا کچھ حصہ ایک اسلامی یونیورسٹی کی تعمیر کے نام پر غلط طور پر منتقل کیا گیا۔
اس مقدمے میں خان کو 14 سال اور بشریٰ بی بی کو سات سال قید ہوئی یہ دونوں فیصلے اپیل میں چیلنج ہو چکے ہیں۔

پیش کردہ الزام یہ تھا کہ دونوں نے تحائف ریاستی توشہ خانہ میں جمع نہیں کروائے یا کم قیمت لگوا کر رکھ لیے اور پھر بیچ دیے۔
ایک لیکڈ آڈیو میں بشریٰ بی بی اپنے ہاؤس مینجر پر تحائف کی تصاویر لینے پر سخت ڈانٹ رہی تھیں، جس سے استغاثہ کو تقویت ملی۔
یہ کیس اب بھی جاری ہے۔

ان الزامات کے باوجود عوام کی نظر میں عمران خان کی شبیہ متاثر نہیں ہوئی۔
پاکستان میں اس پیمانے کی کرپشن عام ہے، اس لیے عوام کو یقین نہیں آتا کہ خان مالی فائدے کے لیے جرم کریں گے۔
یہاں تک کہ فیاض الحسن واوڈا جیسے علیحدہ ہو جانے والے اتحادی بھی کہتے ہیں کہ “وہ پیسے کے پیچھے نہیں تھا اس نے جمیما سے طلاق میں بھی کچھ نہیں لیا۔”

نومبر 2023 میں جب خان قید میں تھے، پی ٹی آئی نے ان کی رہائی کے لیے ایک بڑا مارچ نکالنے کا اعلان کیا۔
بشریٰ بی بی جو اس وقت آزاد تھیں — نے پشاور سے اسلام آباد تک ہزاروں لوگوں کی قیادت کی۔
پوری طرح سفید برقع میں ملبوس، ٹرک کے اوپر کھڑی، ان کی تصاویر وائرل ہو گئیں۔

ایک پاکستانی صحافی کے مطابق: “یہ ناقابلِ یقین لمحہ تھا  ایک غیر سیاسی پس منظر کی عورت، جس کا تعلق کسی بڑے سیاسی خاندان سے نہیں، اتنے بڑے ہجوم کی قیادت کر رہی تھی۔ یہ نئی تاریخ رقم ہو رہی تھی۔” مگر جلد ہی بشریٰ بی بی کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔

عمران خان، جو 74 برس کے ہیں، ایک خط میں دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں “پنجرے جیسی” کوٹھڑی میں قید رکھا گیا ہے، نہ کتابیں، نہ اخبارات۔ بشریٰ بی بی کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے کہ انہیں کتابیں اور طبّی سہولتیں دینے سے انکار کیا جا رہا ہے۔

فیلڈ مارشل عاصم منیر (اب ان کا نیا عہدہ) پہلے سے زیادہ طاقتور ہیں۔ انہوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کامیاب تعلقات قائم کیے، اور پاکستان کی پارلیمان نے انہیں نئی آئینی مراعات اور عمر بھر کی استثنیٰ دے دی ہے۔
فیض حمید جنہیں کبھی خان کا قریبی سمجھا جاتا تھا اب خود گرفتار ہیں اور کورٹ مارشل کا سامنا کر رہے ہیں۔

عمران خان کے قریبی مشیر، خصوصاً ان کی بہن علیمہ، انہیں فوج سے کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کا مشورہ دیتی ہیں۔ جبکہ ایک سابق وزیر کے مطابق: “بشریٰ بی بی مفاہمت کے زیادہ قریب ہیں۔”

خان نے اپنے حالیہ بیان میں کہا: “بشریٰ بی بی نے مجھے کمزور نہیں کیا ان کی ہمت نے مجھے مضبوط بنایا ہے۔”

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

spot_img

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

error: