تجزیہ: امریکی رپورٹ نے پاکستان کو بھارت کے خلاف جنگ میں فاتح قرار دے دیا

بھارت کے خلاف جنگ میں پاکستان کی زبردست کارکردگی کو امریکی رپورٹ نے ’’فوجی کامیابی‘‘ قرار دے دیا۔ دہائیوں کے بعد بھارتی مفروضی روایتی برتری کا سامنا جدید سسٹمز سے مسلح پاکستان سے ہوا۔ یہ کہانی دہلی کے منصوبہ سازوں کو برسوں پریشان کرتی رہے گی۔

مئی 2025 میں امریکی رپورٹ کی صرف ایک سطر نے جنوبی ایشیاء کی برسوں پرانی تزویراتی لوک داستانوں کو ہِلا کر رکھ دیا جس میں بھارت کے ساتھ چار روزہ تصادم میں ’’پاکستان کی فوجی کامیابی‘‘ کا ذکر تھا جبکہ بھارت کے خلاف پاکستان کی فوجی کامیابی کو چینی ہتھیاروں کی نمائش بھی قرار دیا گیا۔ ایک ایسا ملک جو طویل عرصہ سے ایک چھوٹا اور ہر سمت سے مسائل میں جکڑا ہوا ملک سمجھا جاتا تھا، اُس کیلئے امریکی کانگریس کی دستاویز میں یہ جملہ صرف ایک تکنیکی مشاہدہ نہیں بلکہ اِس بات کا اعتراف تھا کہ چار دن تک پاکستان نے اُن فضاؤں اور حلقوں میں اپنی گرفت کو مضبوط رکھا جہاں اُس کی سب سے زیادہ اہمیت تھی۔

In its 2025 report to Congress, the U.S.-China Economic and Security Review Commission described the episode plainly as “Pakistan’s military success over India in its four-day clash,” noting that this success also “showcased Chinese weaponry.”
In its 2025 report to Congress, the U.S.-China Economic and Security Review Commission described the episode plainly as “Pakistan’s military success over India in its four-day clash,” noting that this success also “showcased Chinese weaponry.”

یہ تصادم ایک سانحہ سے شروع ہوا، جموں و کشمیر کی متنازع وادیوں میں ایک ہلاکت خیز حملے کے نتیجہ میں 26 عام شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بھارت نے، جیسا کہ وہ بارہا وعدہ کرتا آیا ہے، پاکستان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا اور اسے جموں و کشمیر میں ہونے والے سانحہ کا درعمل قرار دیا۔ اِس کے بعد جو ہوا وہ محض توپ خانوں سے ہونے والے حملوں کا تبادلہ نہ تھا بلکہ دونوں ملکوں کی افواج نے نصف صدی کے بعد پہلی بار ایک دوسرے کی سرزمین پر گہرائی تک ضربیں لگائیں اور ایک سرحدی رنجش کو جدید جنگ کے تھیٹر میں تبدیل کر دیا۔ پاکستان کی پہلی کامیابی بہت سادہ مگر زبردست تھی جس نے اِس کہانی کو ایک اور بھارتی آپریشن نہیں بننے دیا۔

برسوں سے نئی دہلی اور بہت سے مغربی دارالحکومتوں میں تزویراتی بحث بھارت کی روایتی برتری کو کسی فطری قانون کے طور پر پیش کرتی رہی ہے۔ بھارت بڑا تھا، معاشی لحاظ سے بہتر تھا اور زیادہ ٹیکنالوجی سے لیس تھا جبکہ اِس نقطہِ نظر کے مطابق پاکستان محض اپنے عزم، جغرافیہ اور ایٹمی قوت کے سہارے پر زندہ تھا مگر مئی میں رونما ہونے والے چار روزہ تصادم نے اِس پورے منظر نامہ کو یکسر بدل کے رکھ دیا۔ بھارت کوئی واضح فتح حاصل نہ کر سکا اور پاکستان کسی دباؤ کا شکار نہ ہو سکا۔ مختصر یہ کہ شدید لڑائی کے اُن پیمانوں پر، جو واقعی اہم ہیں، سائز میں ایک چھوٹے ملک نے یہ واضح کر دیا کہ وہ دشمن کے حملوں کا مقابلہ بھی کر سکتا ہے اور پھر ردِعمل کی نوعیت اور رفتار بھی خود طے کر سکتا ہے۔

اِس کارکردگی کے پیچھے ایک ایسا تعلق کارفرما تھا جو اکثر نعروں میں تو بیان کیا جاتا ہے مگر اُس کی تفصیلات بہت کم بیان ہوتی ہیں۔ پاکستان نے 2019 سے 2023 کے درمیان قریباً 80 فیصد ہتھیار چین سے درآمد کیے۔ یہ شرح محض حسابی دلچسپی کا معاملہ نہیں بلکہ ایک شراکت داری کی نوعیت کی عکاسی ہے۔ اِس تعلق میں وارئیر VIII جیسی کئی ہفتوں پر محیط انسدادِ دہشتگردی مشقیں اور AMAN جیسی کثیرالملکی بحری مشقیں شامل ہیں۔ پاکستانی پائلٹس، ائیر ڈیفینڈرز اور منصوبہ ساز 2025 تک چینی نظام کے صرف خریدار ہی نہیں رہے تھے بلکہ وہ چینی نظام کے ماہر صارف بن چکے تھے جنہوں نے چینی ہارڈویئر کو ایک الگ طرز کے پاکستانی عسکری نظریہ کے اندر جذب کر لیا تھا۔ یعنی سیکھنے کا دشوار مرحلہ کسی بحران کے آنے سے پہلے ہی عبور کیا جا چکا تھا۔

A Hindu resident speaks as he joins Muslim demonstrators during a protest to condemn the terror attack in Pahalgam, in Mumbai on April 25, 2025. At least 26 people were killed April 22 in Indian-administered Kashmir when gunmen opened fire on tourists, security sources told AFP, in the insurgency-hit region's deadliest attack on civilians since 2000. (Photo by Indranil MUKHERJEE / AFP)
A Hindu resident speaks as he joins Muslim demonstrators during a protest to condemn the terror attack in Pahalgam, in Mumbai on April 25, 2025. At least 26 people were killed April 22 in Indian-administered Kashmir when gunmen opened fire on tourists, security sources told AFP, in the insurgency-hit region’s deadliest attack on civilians since 2000. (Photo by Indranil MUKHERJEE / AFP)

وہ چار دن پاکستانی ہاتھوں میں موجود کئی نمایاں چینی سسٹمز کا جنگی تعارف بن گئے۔ طویل فاصلے کا فضائی دفاعی نظام ایچ کیو 9 اور بصری حد سے آگے فضا سے فضا میں مار کرنے والا میزائل پی ایل 15 اور لڑاکا طیارے جے 10 نے چمکیلے کتابچوں سے نکل کر حقیقی اور متنازع فضائی حدود میں قدم رکھا۔ پاکستان کیلئے یہ محض نمائشی سامان نہ تھا بلکہ ایسے اوزار تھے جنہوں نے پاکستانی فضائیہ کو یہ طاقت دی کہ وہ بھارت کیلئے فضاؤں میں کوئی میدان خالی نہ چھوڑے، اُس کیلئے انتہائی اہمیت کے حامل مقامات کو خطرے میں ڈال کر رکھے اور اِس بیانیہ کو تَہ و بالا کر دے کہ رافیل طیارے اور مغربی شراکت داریاں بھارتی غلبہ کو یقینی بنا چکی ہیں۔ بیجنگ کیلئے اِن پروازوں نے ایک حقیقی تجربہ گاہ کا کام کیا۔ ہر قدم، ہر مداخلت اور ریڈار ٹریکنگ کا ہر لمحہ چین کیلئے ایک ڈیٹا بن گیا کہ اُس کے سسٹمز ایسے وقت میں عملی طور ہر کس طرح کام کرتے ہیں جب فضاؤں میں مکمل طور پر ایک تصادم کی کیفیت ہو۔

France's President Emmanuel Macron (C) delivers a speech in front of a Dassault Mirage 2000 (L) and a Dassault Rafale (R) fighter aircrafts during his visit of the French Air and Space Force (Armee de l'air et de l'espace) Luxeuil-Saint-Sauveur Airbase in Saint-Sauveur, north-eastern France on March 18, 2025. (Photo by Ludovic MARIN / POOL / AFP)
France’s President Emmanuel Macron (C) delivers a speech in front of a Dassault Mirage 2000 (L) and a Dassault Rafale (R) fighter aircrafts during his visit of the French Air and Space Force (Armee de l’air et de l’espace) Luxeuil-Saint-Sauveur Airbase in Saint-Sauveur, north-eastern France on March 18, 2025. (Photo by Ludovic MARIN / POOL / AFP)

جنگ کے بعد جنم لینے والی بحث زیادہ تر رافیل سے متعلق سوالات کے گرد گھومتی رہی۔ پاکستان نے چینی فراہم کردہ سسٹمز استعمال کرتے ہوئے بھارتی طیارے گرائے، جن میں ممکنہ طور پر رافیل بھی شامل تھے، ایسی رپورٹس فرانس اور بھارت دونوں کی ساکھ پر کاری ضرب بن کر لگیں۔ وہ محتاط رپورٹ جس پر یہ تمام داستان قائم ہے، محض یہ بتاتی ہے کہ مبینہ طور پر 3 بھارتی طیارے مار گرائے گئے تاہم یہ ضروری نہیں کہ وہ تینوں رافیل ہوں۔ بہرحال سیاست اور ہتھیاروں کی منڈی میں اکثر تاثر اعداد و شمار سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ عالمی گفتگو میں سب سے نمایاں بات یہ تھی کہ رافیل فضا میں گئے جبکہ پاکستان کے زیرِ استعمال چینی سسٹمز وہاں اُن کا انتظار کر رہے تھے۔

چین کی سفارت کاری کو اِسی تاثر نے تقویت دی، چینی سفارت خانوں نے پاک بھارت تصادم میں اپنے سسٹمز کی مبینہ کارکردگی کو فخریہ انداز میں پیش کیا اور اسے جنوب مشرقی ایشیاء سے خلیج تک ممکنہ خریداروں کیلئے ایک چلتا پھرتا شو روم بنا دیا۔ فرانسیسی انٹیلیجنس نے بیجنگ پر الزام لگایا کہ اُس نے ایک ایسی غلط معلوماتی مہم منظم کی جس میں AI سے بنائی گئی تصاویر اور حتیٰ کہ ویڈیو گیمز کے مناظر کو ملبہ کے طور پر استعمال کیا گیا تاکہ رافیل کا برانڈ داغدار کیا جا سکے۔ اگر کوئی مبالغہ آرائی تھی بھی اور اسے الگ بھی کر دیا جائے تب بھی جو طاقتور حقیقت باقی رہ جاتی ہے وہ یہ ہے کہ چین کی ساری مارکیٹنگ تبھی ممکن ہو سکی جب پاکستانی آپریٹرز نے واقعتاً فضاؤں میں بھارت سے لڑتے ہوئے اسے جامد حالت تک پہنچا دیا۔

اسلام آباد کیلئے وہ چار دن بڑی اہمیت کے حامل ہیں جو اُس کیلئے کسی پریشان کن لمحہ سے نکلنے کی بجائے ایک فتح کا تاثر دیتے ہیں، پاکستان نے انہیں مستقبل کی ریہرسل کے طور پر لیا ہے۔ چند ہی ہفتوں میں چین نے مبینہ طور پر ایک ایسا پیکیج پیش کیا جس میں چالیس ففتھ جنریشن فائٹرز جے 35 اور ارلی وارننگ ائیر کرافٹ کے جے 500 اور بیلسٹک میزائل ڈیفیس سسٹم شامل تھے۔ اسی مہینے پاکستان نے اپنے دفاعی بجٹ میں 20 فیصد اضافہ کر کے اسے لگ بھگ 9 ارب ڈالرز تک پہنچانے کا اعلان کیا جبکہ مجموعی سرکاری اخراجات میں کٹوتی کی گئی۔ ایک معاشی دباؤ کے شکار ملک نے اِس بات کو ترجیح دی کہ اُس کا تازہ ثابت شدہ دفاعی توازن کمزور نہ پڑے۔ پاکستانی منصوبہ سازوں کیلئے سبق نہایت دو ٹوک تھا کہ کمزوری کی قیمت سٹیل اور سیلیکون کی قیمت سے زیادہ ہو گی۔

The district administration has displayed a billboard in support of the Pakistan Armed Forces after a ceasefire that ended the clashes with India, at Muree Road in Rawalpindi, Pakistan, on May 14, 2025. Pakistan calls the operation against India "Bunyan-um-Marsoos". (Photo by Zubair Abbasi / Middle East Images via AFP)
The district administration has displayed a billboard in support of the Pakistan Armed Forces after a ceasefire that ended the clashes with India, at Muree Road in Rawalpindi, Pakistan, on May 14, 2025. Pakistan calls the operation against India “Bunyan-um-Marsoos”. (Photo by Zubair Abbasi / Middle East Images via AFP)

اِس حوالہ سے مغربی تبصروں میں خاص طور پر یہ ترغیب موجود ہے کہ حالیہ پاک بھارت تصادم کو اِس بات کے ثبوت کے طور پر لیا جائے کہ پاکستان مکمل طور پر چین کے سہارے پر کھڑا ہے حالانکہ حقیقت کئی تہوں میں پوشیدہ ہے۔ بیجنگ نے یقیناً اِس تصادم سے فائدہ اٹھا کر اپنی اسلحہ سازی کو آزمایا اور مارکیٹ کیا لیکن چین نے اِس بحران کو کسی سکرپٹ کے طور پر خود نہیں لکھا بلکہ پاکستان اِس تصادم میں ایک خود مختار فریق کے طور پر داخل ہوا اور اسی حیثیت میں اپنی ریڈ لائنز اور اپنے ایداف کے ساتھ لڑا۔ رپورٹ جو بیان کرتی ہے وہ کٹھ پتلیوں کی جنگ نہیں بلکہ ایسی شراکت داری ہے جس میں پاکستان کو جدید ترین صلاحیت ملتی ہے اور چین کو ایک ایسا آزمودہ کلائنٹ ملتا ہے جس کا جنگی ریکارڈ دوسرے خریداروں کے سامنے بطور حوالہ پیش کیا جا سکے۔

بھارت کیلئے یہ واقعہ تزویراتی طور پر الجھنیں پیدا کرنے والا ہے۔ بھارت کی عسکری اور سیاسی قیادت طویل عرصہ سے یہ دعویٰ کرتی آئی ہے کہ پاکستان کے ساتھ مستقبل میں کوئی بھی تصادم ایک مختصر، تیز اور تادیبی حملے کے طور پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ایک سرکش حملے سے جنم لینے والے مئی 2025 کے چار روزہ تصادم کے اختتام پر بھارت ایسی کسی بلندی پر کھڑا نظر نہیں آیا جہاں اس کے مقابل کوئی نہ ہو۔ بھارت کی افواج نے گہرائی تک ضربیں لگائیں مگر پاکستان نے بھی ایسا ہی کیا۔ بھارت کے طیاروں نے اُڑان بھری مگر پاکستان نے یہ ثابت کیا کہ بھارتی طیاروں کو کوئی خالی آسمان نہ ملے گا بلکہ انہیں طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلز اور مربوط فضائی دفاعی ریڈارز کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اِس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان نے اچانک یہ رقابت جیت لی ہے بلکہ اِس کا مطلب زیادہ دقیق اور شاید زیادہ نتیجہ خیز ہے۔ بھارت کی روایتی برتری اور پاکستان کیلئے ایٹمی آپشن کو آخری حد سمجھے جانے والا خیال اب بہت پیچھے رہ گیا ہے جبکہ درمیانی فاصلہ پاکستانی ہاتھوں میں چینی سسٹمز سے بھرپور ہے، وہ سسٹمز جو اب جنگی تجربہ حاصل کر چکے ہیں اور اگر جے 35 کا پیکیج مکمل ہو جاتا ہے تو جلد ہی مزید اپگریڈ ہو جائیں گے۔ مئی کے اُن چار دنوں میں اِس خیال کو براہِ راست آزمایا گیا کہ بھارت کم قیمت پر پاکستان کے خلاف تادیبی حملے کر سکتا ہے، اور یہ خیال درست ثابت نہ ہو سکا۔

Russia's President Vladimir Putin walks with China's President Xi Jinping, North Korea's leader Kim Jong Un and Pakistan's Prime Minister Shehbaz Sharif before a military parade marking the 80th anniversary of victory over Japan and the end of World War II, in Beijing's Tiananmen Square on September 3, 2025. (Photo by Alexander KAZAKOV / POOL)
Russia’s President Vladimir Putin walks with China’s President Xi Jinping, North Korea’s leader Kim Jong Un and Pakistan’s Prime Minister Shehbaz Sharif before a military parade marking the 80th anniversary of victory over Japan and the end of World War II, in Beijing’s Tiananmen Square on September 3, 2025. (Photo by Alexander KAZAKOV / POOL)

اِس نئے توازن کی قیمت خطرے کی ایک اور زیادہ تیز دھار ہے، اب حملے زیادہ دور تک جاتے ہیں، میزائلز زیادہ تیزی سے اڑتے ہیں اور وارننگ کا وقت سمٹ کر بہت کم رہ گیا ہے۔ جب دونوں فریق چند گھنٹوں میں ایک دوسرے کی سرزمین پر گہرائی تک حملے کر سکتے ہوں جبکہ اُن کے سرپرست اور سپلائرز ہر لمحہ انہیں قریب سے دیکھ رہے ہوں تو تصعید کی سیڑھی مزید اونچی اور پھسلنی ہو جاتی ہے۔ پاکستان کی یہ کامیابی حقیقی ہے کہ اُس نے ایک بحران کو اپنی صلاحیت کے ثبوت میں بدل دیا لیکن یہ خطرہ بھی اتنا ہی حقیقی ہے کہ اگلی بار کوئی ریڈار پر ایک دھبے کو بھی غلط پڑھ لے یا کوئی سیاسی اشارہ اگر غلط سمجھا جائے اور پھر نتیجتاً 2025 میں احتیاط سے ماپے گئے چار دن ایک ایسی جنگ میں بدل جائیں جس پر قابو پانا کہیں زیادہ مشکل ہو۔

بہرحال اسلام آباد کے نقطہِ نظر سے بنیادی کامیابی ناقابلِ انکار ہے۔ بھارت اور پاکستان کے مابین دہائیوں میں سب سے زیادہ سنجیدہ نوعیت کے تصادم کی صورتِ حال میں پاکستان نے محض اپنی بقاء کو ہی یقینی نہیں بنایا بلکہ پاکستان نے اِس قدر زبردست مظاہرہ کیا کہ ایک امریکی کمیشن نے، جو کانگریس کیلئے رپورٹ لکھ رہا تھا، پاکستان کے طرزِ عمل کو ’’فوجی کامیابی‘‘ کے الفاظ میں بیان کیا ہے اور غیر ملکی طاقتوں نے پاکستان کی کارکردگی کو جدید فضائی جنگ کے ایک ریفرنس کیس کے طور پر استعمال کیا ہے۔ چار دن یہ دکھانے کیلئے کافی تھے کہ یہ ایک ایسا صفِ اوّل کا میدانِ جنگ ہے جہاں نئی طاقتوں کے توازن حقیقی وقت میں لکھے جاتے ہیں۔ یہی وہ کہانی ہے جسے رپورٹ کی وہ چند سطور خاموشی سے قید کر گئیں اور یہی وہ کہانی ہے جو نئی دہلی کے منصوبہ سازوں کو برسوں تک پریشان کرتی رہے گی۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

error: