ٹی ٹی پی افغان سرزمین کو پاکستان پر حملوں کیلئے استعمال کر رہی ہے، ڈنمارک

ٹی ٹی پی (کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان) افغان سرزمین کو پاکستان پر حملوں کیلئے استعمال کر رہی ہے جبکہ اسے افغان عبوری حکومت کی لاجسٹک اور مالی معاونت حاصل ہے، یہ گروہ خطہ کیلئے ایک سنگین خطرہ ہے۔

نیو یارک (تھرسڈے ٹائمز) — ڈنمارک نے کہا ہے کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغان سرزمین کو پاکستان پر حملوں کیلئے استعمال کر رہی ہے جبکہ اسے افغان عبوری حکومت کی لاجسٹک اور مالی معاونت حاصل ہے۔

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں آئی ایس آئی ایل (داعش) اور القاعدہ پر پابندی سے متعلق کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے ڈنمارک نے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے متعلق سنگین خدشات کا اظہار کیا ہے۔

ڈنمارک کی نائب مستقل مندوب سینڈرا جینسن لینڈی نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹی ٹی پی (کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان) کے تقریباً 6 ہزار جنگجو ہیں اور یہ گروہ خطہ کیلئے ایک اور سنگین خطرہ ہے جسے افغانستان کے عبوری حکام سے لاجسٹک اور مالی معاونت حاصل ہے۔

سینڈرا جینسن لینڈی نے ڈنمارک کی نمائندگی کرتے ہوئے سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہا ہے کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے افغان سرزمین سے پاکستان میں متعدد بڑے حملے کیے ہیں جن میں سے بعض حملوں میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔

ڈنمارک نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں داعش، القاعدہ اور اُن کے شراکت داروں کے بڑھتے خطرات کا جائزہ بھی پیش کیا جو تجزیاتی معاونت اور پابندی مانیٹرنگ ٹیم کے تازہ ترین اندازوں پر مبنی تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ داعش، القاعدہ اور اُن کے شراکت دار خطہ میں مسلسل سرگرم ہیں اور افریقہ میں سب سے زیادہ شدت دیکھی گئی ہے، یہ گروہ سوشل میڈیا کے ذریعہ تشدد کی تعریف اور نوجوانوں کی بھرتی اور فنڈز جمع کرنے میں مصروف ہیں، کرپٹو کرنسی کا استعمال پابندیوں کے نفاذ کیلئے ایک بڑھتا ہوا چیلنج ہے، مشرقِ وسطیٰ میں نقصان کے بعد داعش نے اپنا مرکز افریقہ کی طرف منتقل کر دیا ہے جہاں اسلامی ریاست مغربی افریقہ (آئی ایس ڈبلیو اے پی) نے سرگرمیاں اور پروپیگنڈا بڑھایا ہے۔

سینڈرا جینسن لینڈی نے کہا ہے کہ داعش خراسان وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء میں سنگین ترین خطرات میں سے ایک ہے جس کے کم از کم 2 ہزار جنگجو ہیں اور اُن کی قیادت ثناء اللّٰہ غفاری کر رہا ہے، یہ شیعہ کمیونٹیز اور افغان عبوری حکام اور غیر ملکی شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں بالخصوص شام، افریقہ اور وسطی ایشیاء کے درمیان غیر ملکی دہشتگرد جنگجووں کی نقل و حرکت رکن ممالک کیلئے ایک مستقل تشویش ہے، القاعدہ کی مرکزی قیادت کمزور اور حد درجہ کم اثر ہے جبکہ شراکت دار گروہ بشمول جماعت نصر الاسلام و المسلمین نے مقامی اختلافات کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کیا ہے، القاعدہ جزیرہ نما عرب بھی حملے بھڑکانے اور فنڈز جمع کرنے میں سرگرم ہے۔

ڈنمارک کی نائب مستقل مندوب کا مزید کہنا تھا کہ مجموعی طور پر داعش اور القاعدہ نے خود کو مستحکم، ہم آہنگ اور موقع پرست ثابت کیا ہے جبکہ علاقائی عدم استحکام، کمزور حکومت اور جدید ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھا کر اپنا اثر و رسوخ قائم رکھا ہے جبکہ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1267 پابندیوں کے تحت مسلسل نگرانی اور کثیرالجہتی تعاون کی ضرورت ہے۔

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

error: