تجزیہ: فیلڈ مارشل عاصم منیر بھارت کے خلاف جنگ کے بعد قومی ہیرو کے طور پر ابھرے ہیں، امریکی جریدہ بلومبرگ

فیلڈ مارشل عاصم منیر گزشتہ کئی دہائیوں میں پاکستان کے سب سے زیادہ بااختیار آرمی چیف ہیں جنہوں نے مئی میں بھارت کے خلاف جنگ اور وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ سے قریبی روابط کے ذریعہ پاکستان کو دوبارہ جیو پولیٹیکل مرکز میں لا کھڑا کیا ہے، امریکا پاکستان سے تعلقات مضبوط بنا کر خطہ میں طاقت کا توازن از سرِ نو ترتیب دے رہا ہے۔

نیویارک (تھرسڈے ٹائمز) — امریکی جریدہ ’’بلومبرگ‘‘ نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کو گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران پاکستان کا سب سے زیادہ بااختیار آرمی چیف قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک سال پہلے تک امریکا کی چین کے خلاف حکمتِ عملی میں بھارت مرکزی کردار تھا اور پاکستان کو بڑی حد تک پَسِ پُشت سمجھا جا رہا تھا تاہم اب صورتحال بدل چکی ہے، ایک طرف ڈونلڈ ٹرمپ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ محاذ آرائی میں مصروف ہیں جبکہ دوسری جانب امریکی صدر نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کو گلے لگا لیا ہے۔

بلومبرگ کے مطابق گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران پاکستان کے سب سے زیادہ بااختیار آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے رواں برس جون میں وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد واشنگٹن میں ایک عشائیہ کے دوران امریکا میں مقیم پاکستانیوں کو بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی ایشیاء کو تباہی سے بچایا ہے اور مئی میں ایٹمی طاقت کے حامل پڑوسی بھارت کے ساتھ ہونے والی جھڑپ کو روکنے کیلئے جنگ بندی کا سہرا بھی امریکی صدر کو جاتا یے۔

ایک سال پہلے تک امریکا کی چین کے خلاف حکمتِ عملی میں بھارت مرکزی کردار تھا اور پاکستان کو بڑی حد تک پَسِ پُشت سمجھا جا رہا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ٹرمپ بھارت پر بھاری ٹیرف عائد کر کے گزشتہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ پر محیط اُس پالیسی کو پلٹ رہے ہیں جس کا مقصد دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے ساتھ روابط بہتر بنانا تھا جبکہ اسی دوران پاکستان اور امریکا کے تعلقات بہتری کی طرف گامزن ہیں۔

Chief of Army Staff General Asim Munir receives the baton of Field Marshal from Prime Minister Shehbaz Sharif and President Asif Ali Zardari.
Chief of Army Staff General Asim Munir receives the baton of Field Marshal from Prime Minister Shehbaz Sharif and President Asif Ali Zardari.

ایک طرف ڈونلڈ ٹرمپ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ محاذ آرائی میں مصروف ہیں جبکہ دوسری جانب امریکی صدر نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کو گلے لگا لیا ہے جو بھارت کے ساتھ جنگ کے بعد ایک گمنام کمانڈر سے قومی ہیرو کے طور پر ابھرے ہیں۔ رواں ماہ پاکستانی ارکانِ پارلیمان نے ایک آئینی ترمیم منظور کی ہے جس کے تحت فیلڈ مارشل کے عہدے پر فائز عاصم منیر کو تاحیات استثنیٰ اور ملک کی تمام مسلح افواج پر مکمل کنٹرول دے دیا گیا ہے، وہ سابق فوجی آمر جنرل ایوب خان کے بعد دوسرے طاقتور ترین فوجی راہنما بن گئے ہیں۔

امریکی جریدہ نے لکھا ہے کہ اب ڈونلڈ ٹرمپ جب بھی بھارت اور پاکستان کے تنازع پر بات کرتے ہیں تو فیلڈ مارشل عاصم منیر کی تعریف کرتے ہیں اور انہیں ’’زبردست آدمی‘‘ قرار دیتے ہیں اور انہیں اُس بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ہم پَلّہ سمجھتے ہیں جو امریکی صدر کے اِس دعویٰ کو مسترد کر چکے ہیں کہ انہوں نے جنگ بندی میں کردار ادا کیا تھا۔

امریکی مؤقف میں اِس تبدیلی نے خطہ میں پاکستان کو ایک بار پھر جیوپولیٹیکل طاقت کے طور پر ابھارا ہے۔ پاکستان چین کا قریبی شراکت دار ہے، چین نے گزشتہ دہائی میں اِس جنوبی ایشیائی ملک میں خطیر سرمایہ کاری کی ہے جبکہ پاکستان نے ستمبر میں سعودی عرب کے ساتھ باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے ہیں اور غزہ میں امن مشن کیلئے فوج بھیجنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔

وسیع تر پیرائے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اِس رُخ نے واشنگٹن میں اُس دو جماعتی اتفاقِ رائے میں دراڑ ڈال دی ہے جس کے تحت بھارت کو چین کے توازن کے طور پر مرکزیت دی جا رہی تھی۔ سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دورِ حکومت میں جنوبی و وسطی ایشیائی امور کی سابق امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری نیشا بسوال کے مطابق مضبوط پاک مریکا تعلقات امریکا کیلئے بھارت پر دباؤ ڈالنے کا ایک ذریعہ بن سکتے ہیں۔

بھارت کے ساتھ مئی میں ہونے والی جھڑپ کے بعد پاکستان کے قومی مزاج میں تبدیلی واضح ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر اور دیگر راہنماؤں کی بحیثیت ہیرو تصاویر بِل بورڈز اور بینرز پر آویزاں ہیں جبکہ رسالوں کے سَر وَرَق پر بھی یہی تصاویر ملتی ہیں۔ بھارتی طیاروں کو گِراتے ہوئے پاکستانی جنگی جہازوں کی فاتحانہ تصاویر اسلام آباد کی سرکاری عمارتوں کے اندر اور کراچی میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے میوزیم کے ایٹریم میں سجی ہوئی ہیں۔

پاکستانی حکومت، فوج اور کاروباری حلقوں سے تعلق رکھنے والے عہدیداروں نے حالیہ دنوں میں بلومبرگ نیوز سے گفتگو میں قومی احیاء کے احساس کو بیان کیا ہے۔ بہت سے لوگ بھارت کے ساتھ جھڑپ کو بغیر کسی شرط کے اور واضح فتح سمجھتے ہیں اور اسلام آباد کے اِس دعویٰ کی تائید کرتے ہیں جس کو نئی دہلی مسترد کرتا ہے تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان نے 7 بھارتی طیارے مار گِرائے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اِس لڑائی نے پاکستان کو متحد کیا، عالمی سطح پر اُجاگر کیا اور دنیا کے دارالحکومتوں میں پاکستان کیلئے نئے دروازے کھول دیئے۔

بلومبرگ کے مطابق امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ بھارت پر پاکستان کو ترجیح نہیں دے رہے اور واشنگٹن و نئی دہلی کے حکام اِس بات کے قریب دکھائی دیتے ہیں کہ ایک ایسے تجارتی معاہدے پر پہنچ جائیں جو دنیا کے بلند ترین یعنی 50 فیصد ٹیرف کو کم کر دے۔ امریکی وزیرِ خارجہ نے گزشتہ ماہ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرا یہ خیال نہیں کہ ہم پاکستان کے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں اُس سے بھارت کے ساتھ امریکی تعلقات کو کوئی نقصان پہنچ رہا ہے۔ تاہم مارکو روبیو نے تسلیم کیا کہ پاکستان کے ساتھ موجودہ تعلقات اہم ہیں۔

پاکستان اور امریکا سرد جنگ کے اُس زمانے سے وقتا فوقتاً اتحادی رہے ہیں جب واشنگٹن کمیونزم کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے شراکت دار ڈھونڈ رہا تھا۔ وزیرِ خارجہ ہینری کیسینجر نے 1971 میں چین کے خفیہ سفارتی مشن کیلئے اسلام آباد سے ایک پاکستانی طیارہ استعمال کیا جبکہ 1980 کی دہائی میں پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف برسرِ پیکار افغان مجاہدین تک امریکی امداد پہنچانے میں تعاون فراہم کیا۔ بعد ازاں، پاکستان نے امریکی ’’وار آن ٹیرر‘‘ میں لاجسٹک معاونت فراہم کی۔

جب چین واشنگٹن کا مرکزی حریف بن کر ابھرا تو امریکی حکومتیں بھارت کے مزید قریب آتی گئیں اور پاکستان کے ساتھ روابط پَس مَنظَر میں چلے گئے جو طویل عرصہ سے بیجنگ کا دوست ہے۔ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی اور 2011 میں ایک جری امریکی آپریشن کے ذریعہ ہلاکت کے بعد پاک امریکا تعلقات مزید خراب ہو گئے۔

امریکی جریدہ نے لکھا ہے کہ رواں برس صورتحال اچانک تبدیل ہو گئی ہے۔ مارچ میں کانگریس سے خطاب کے دوران امریکی صدر نے 2021 میں کابل میں ہونے والے بم دھماکے، جس میں 13 امریکی فوجی مارے گئے تھے، کے مبینہ ماسٹر مائنڈ کی گرفتاری پر پاکستان کی تعریف کی۔ پھر مئی میں، جب بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی چار دن کی مسلح جنگ میں تبدیل ہو گئی، ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے مداخلت کر کے جنگ بندی کرائی ہے۔ اِس دعویٰ نے پاکستان کو نہایت خوش کر دیا تاہم بھارتی حکام برہم ہو گئے۔ پاکستان نے آگے بڑھ کر ٹرمپ کو نوبل امن انعام کیلئے نامزد کیا جبکہ ٹرمپ نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کو ’’میرا پسندیدہ فیلڈ مارشل‘‘ قرار دیا۔

اسی دوران اسلام آباد کے حکام نے ٹرمپ کے ترجیحی شعبوں بالخصوص کرپٹو کرنسی اور انسدادِ دہشتگردی پر توجہ مرکوز کی ہے۔ جون میں واشنگٹن کے دورے پر فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کہا کہ وہ کرپٹو کرنسی کے معاملہ پر وائٹ ہاؤس کے ساتھ کام کریں گے۔ اِس سے چند ماہ قبل ہی ورلڈ لبرٹی فنانشل پارٹنرز نامی کرپٹو وینچر، جس کے ٹرمپ خاندان سے روابط ہیں، نے ابتدائی تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ جولائی میں پاکستان اور امریکا کے درمیان ایک تجارتی معاہدہ طے پایا جس کے تحت پاکستانی مصنوعات پر ٹیرف 19 فیصد تک لایا گیا جو ایشیاء کے دیگر ممالک سے کم اور بھارت کی شرح سے کہیں نیچے ہے۔

Saudi Crown Prince Mohammed bin Salman and Pakistan’s Prime Minister Shehbaz Sharif share an embrace after signing a landmark defence agreement. FILE/Saudi Press Agency/Handout via REUTERS
Saudi Crown Prince Mohammed bin Salman and Pakistan’s Prime Minister Shehbaz Sharif share an embrace after signing a landmark defence agreement. FILE/Saudi Press Agency/Handout via REUTERS

پاکستان نے دیگر محاذوں پر بھی اپنی سلامتی کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے اقدامات کیے ہیں۔ گزشتہ ماہ وزیراعظم شہباز شریف نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ اقتصادی معاہدے پر دستخط کیے جبکہ اِس سے کچھ عرصہ قبل دونوں ممالک کا باہمی دفاعی معاہدہ بھی طے پایا تھا۔

اسلام آباد میں انٹرویو کے دوران پاکستانی فوج کے ترجمان جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ صرف امریکی ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں فی الوقت ایسی قیادت موجود ہے جو تمام چیلنجز کے باوجود معاملات کو بہت عمدہ انداز میں سنبھال رہی ہے۔

بلومبرگ نے لکھا ہے کہ پاکستان کیلئے چیلنج یہ ہو گا کہ آیا وہ ٹرمپ پر بھروسہ کر سکتا ہے اور ساتھ ہی امریکا اور چین کے ساتھ توازن برقرار رکھ سکتا ہے یا نہیں۔ چین پاکستان کیلئے ہتھیاروں، انفراسٹرکچر اور امداد کا سب سے بڑا فراہم کنندہ ہے۔ ستمبر میں وزیراعظم شہباز شریف نے بیجنگ میں ایک علاقائی سربراہی اجلاس کے دوران چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی جبکہ چند ماہ قبل وزیرِ خارجہ وانگ یی بھی فیلڈ مارشل عاصم منیر سے مل چکے تھے۔

سرمایہ کاری کیلئے سب سے زیادہ زیرِ بحث شعبوں میں سے ایک پاکستان کے قدرتی وسائل ہیں۔ جولائی میں ٹرمپ نے پاکستان کے بہت بڑے تیل کے ذخائر کی تعریف کی اور اگست میں پاکستان میں تعینات ایک اعلیٰ امریکی سفارت کار نے کہا کہ امریکی کمپنیز اُس شعبہ میں دلچسپی دکھا رہی ہیں جس میں پیداوار کئی برسوں سے کم ہو رہی ہے۔

معدنیات کا شعبہ نسبتاً زیادہ امید افزا ہے۔ اِس حوالہ سے امریکا کا ایک نیا شراکت دار یو ایس سٹریٹجک میٹلز ہے جو کہ میزوری میں قائم کمپنی ہے، اُس نے ستمبر میں ایک پاکستانی فوجی ملکیتی فرم کے ساتھ پاکستان کے حقیقی زمینی وسائل کی ترقی کیلئے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے ہیں۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

error: