spot_imgspot_img

آکسفورڈ یونیورسٹی میں پاک بھارت مباحثہ: پاکستانی طلبہ کی دو تہائی اکثریت سے تاریخی فتح

آکسفورڈ یونیورسٹی میں پاک بھارت اسٹوڈنٹس مباحثے میں پاکستانی طلبہ نے 106 کے مقابلے میں 50 ووٹ لے کر دو تہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کی، جبکہ ایک روز قبل آکسفورڈ یونین کے باضابطہ مباحثے سے بھارتی وفد عین وقت پر دستبردار ہو کر پاکستان کو بلا مقابلہ فتح دے چکا تھا، جس سے بھارتی بیانیے کی کمزوری نمایاں ہو گئی۔

spot_imgspot_img

آکسفورڈ (دی تھرسڈے ٹائمز) — آکسفورڈ یونیورسٹی میں پاک بھارت طلبہ کے درمیان ہونے والے ایک اہم مباحثے میں پاکستانی طلبہ نے دو تہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کر لی، جب کہ ووٹنگ میں پاکستانی ٹیم کو 106 اور بھارتی ٹیم کو صرف 50 ووٹ ملے۔ یہ کامیابی اُس وقت سامنے آئی ہے جب اس سے ایک روز قبل آکسفورڈ یونین کے باضابطہ مباحثے سے بھارتی وفد عین وقت پر دستبردار ہو کر پاکستان کو بلا مقابلہ فتح دے چکا تھا۔

یونیورسٹی کے اندر ہونے والے اس اسٹوڈنٹ مباحثے میں دونوں ممالک کے طلبہ نے پاک بھارت تعلقات اور پالیسی بیانیے پر اپنا اپنا مؤقف پیش کیا۔ شرکا کے مطابق پاکستانی ٹیم نہ صرف دلائل کے اعتبار سے زیادہ تیاری کے ساتھ آئی تھی بلکہ سوال و جواب کے سیشن میں بھی پراعتماد اور مستند جواب دینے میں کامیاب رہی، جب کہ بھارتی طلبہ اٹھائے گئے سوالات کا خاطر خواہ جواب دینے میں ناکام دکھائی دیے۔

اس مباحثے میں پاکستانی ٹیم کی قیادت آکسفورڈ اسٹوڈنٹس یونین کے موجودہ صدر موسیٰ ہراج نے کی۔ پاکستانی مقررین نے بھارت کی پاکستان پالیسی، سکیورٹی بیانیے، میڈیا ڈسکورس اور اندرونی سیاست میں پاکستان کے استعمال کو موضوع بنایا اور مؤقف اختیار کیا کہ نئی دہلی کی حکمتِ عملی حقیقی علاقائی استحکام کے بجائے اندرونِ ملک عوامی جذبات بھڑکانے پر زیادہ مبنی ہے۔

مبصرین کے مطابق سوال و جواب کے دوران بھارتی طلبہ کشمیر، سرحد پار بیانیے اور نفرت انگیز تقاریر جیسے موضوعات پر سخت سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ کئی سوالات اس نکتے پر اٹھے کہ بھارت کی پاکستان پالیسی نے زمینی حقائق میں کون سی حقیقی سکیورٹی کامیابیاں دی ہیں، اور بھارتی میڈیا میں بڑھتی ہوئی قوم پرستی نے سفارت کاری کی گنجائش کو کیسے محدود کیا ہے۔ ووٹنگ کے نتائج نے واضح کر دیا کہ ہال میں موجود اکثریت کے نزدیک زیادہ مضبوط کیس کس جانب سے پیش کیا گیا۔

یہ طلبہ مباحثہ اُس پس منظر میں ہوا جب ایک روز قبل آکسفورڈ یونین کے باضابطہ فورم پر پاکستان کے خلاف بھارتی بیانیے کو کڑے امتحان کا سامنا تھا، مگر بھارتی وفد خود ہی میدان چھوڑ گیا۔ لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے مطابق آکسفورڈ یونین میں ایک تصدیق شدہ ڈیبیٹ میں بھارتی وفد مباحثہ شروع ہونے سے چند گھنٹے قبل ہی دستبردار ہو گیا، جس کے بعد پاکستان کو بلا مقابلہ فتح قرار دیا گیا۔

اس باضابطہ مباحثے کا موضوع تھا: “بھارت کی پاکستان پالیسی محض عوامی جذبات بھڑکانے کی حکمتِ عملی ہے”۔ اس مباحثے کیلئے بھارتی جانب سے ریٹائرڈ بھارتی آرمی چیف جنرل ایم ایم نروا نے، سابق وزیر اور سیاست دان سبرامنیم سوامی اور کانگریس رہنما سچن پائلٹ کو بطور مقرر اعلان کیا گیا تھا، تاہم تینوں ہی طے شدہ ڈیبیٹ کے دن پہنچنے سے انکار کر گئے جس کے بعد دوطرفہ مباحثہ ممکن نہ رہا۔

اس کے برعکس پاکستان کی جانب سے ہائی کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل، سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل (ر) زبیر محمود حیات اور سابق وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر مباحثے میں شرکت کیلئے آکسفورڈ میں موجود تھے اور بحث کیلئے پوری طرح تیار تھے۔ پاکستانی ہائی کمیشن نے اپنے بیان میں کہا کہ بھارتی وفد کی دستبرداری نے بھارتی بیانیے کی کمزوری کو بے نقاب کر دیا اور واضح کیا کہ ٹی وی اسٹوڈیوز میں پاکستان مخالف پروپیگنڈا کرنے والے بھارتی تجزیہ کار، جب کھلی، منصفانہ اور ضابطہ کار بحث کا سامنا ہو تو وہاں حاضر ہونے کی ہمت نہیں رکھتے۔

ہائی کمیشن کے مطابق آکسفورڈ یونین کی رکنیت میں بھارتی طلبہ کی تعداد پاکستانی طلبہ سے کہیں زیادہ ہے، اس کے باوجود بھارتی وفد نے ایسے فورم پر سامنا کرنے سے گریز کیا جہاں ووٹ کے ذریعے ریکارڈ پر فیصلہ ہونا تھا۔

تجزیہ کار ان دونوں واقعات کو ایک باضابطہ آکسفورڈ یونین مباحثے میں بھارتی وفد کی فرار، اور دوسرے اسٹوڈنٹس ڈیبیٹ میں واضح شکست مجموعی طور پر بھارت کے بیانیے کیلئے دوہرے جھٹکے کے طور پر دیکھ رہے ہیں، ایک سفارتی سطح پر اور ایک طلبہ کی سطح پر۔ رسمی فورم پر بھارتی وفد نے مناظرہ شروع ہونے سے پہلے ہی ہتھیار ڈال دیے، جب کہ طلبہ فورم پر بھارتی ٹیم نے شرکت تو کی، مگر ووٹنگ میں دو تہائی اکثریت سے شکست کھا گئی۔

پاکستانی سفارت کار اور طلبہ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ جب بحث کو دوستانہ یا جانب دار میڈیا اسٹیج کے بجائے آزاد اور جامع فورم پر لایا جاتا ہے تو بھارت کی پاکستان پالیسی کا بیانیہ سخت سوالات کا سامنا نہیں کر پاتا، جب کہ پاکستان دلیل، قانونی مؤقف اور مکالمے کے ذریعے زیادہ مضبوط کیس پیش کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔

آکسفورڈ میں زیرِ تعلیم پاکستانی طلبہ کیلئے یہ کامیابی محض ایک کیمپس مباحثہ نہیں بلکہ قومی سطح پر فخر کا باعث بن چکی ہے۔ سوشل میڈیا پر آکسفورڈ کے پاکستانی طلبہ اور سابق طلبہ نے مباحثے کی ویڈیوز اور تصاویر شیئر کرتے ہوئے موسیٰ ہراج اور ان کی ٹیم کو اس بات کی مثال قرار دیا ہے کہ نوجوان پاکستانی عالمی فورمز پر، تیاری اور علمی بنیادوں کے ساتھ، بھارت کے بیانیے کو چیلنج کر سکتے ہیں۔

spot_img

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

error: