راولپنڈی (تھرسڈے ٹائمز) — ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے اپنی اہم پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان اس وقت ایک سنگین اندرونی خطرے کا سامنا کر رہا ہے جس کی بنیاد ایک شخص کی خود ساختہ، غیر حقیقی اور وہم زدہ سوچ میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شدید فرسٹریشن نے اسے اس مقام تک پہنچا دیا ہے جہاں وہ خود کو ریاست سے بالاتر سمجھنے لگا ہے، اور اس کا بنایا ہوا بیانیہ اب قومی سلامتی اور ریاستی استحکام کے لیے براہِ راست خطرہ بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج کا نہ کسی علاقے، لسانیت، مذہبی جھکاؤ یا سیاسی نظریے سے کوئی تعلق ہے۔ وردی پہن لینے کے بعد فوج کی صرف ایک شناخت رہ جاتی ہے، پاکستانی فوج۔ انہوں نے کہا کہ ہم مڈل، لوئر مڈل اور محنت کش طبقات سے نکلتے ہیں اور ہر روز عوام کے تحفظ کے لیے اپنی جانیں قربان کرتے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی ذات کے خمار، وہم اور خودپسندانہ ذہنیت کی تسکین کے لیے افواج پاکستان یا اس کی قیادت پر حملہ کرے گا تو اس کے ساتھ پوری سختی سے نمٹا جائے گا۔ ان کے مطابق فوج اور عوام کے درمیان دراڑ ڈالنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔ رائے یا مثبت تنقید ہر شہری کا حق ہے، مگر یہ حق کسی کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ قوم کو اپنی ہی فوج کے خلاف بھڑکائے۔
اگر کوئی شخص اپنی ذات، اپنی خودپسندانہ ذہنیت اور وہم زدہ سوچ کی تسکین کیلئے افواجِ پاکستان اور اس کی قیادت پر حملہ آور ہوتا ہے تو اس کے ساتھ پوری سختی اور بھرپور انداز میں نمٹا جائے گا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر pic.twitter.com/jThGjNBt4x
— The Thursday Times (@thursday_times) December 5, 2025
انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام جانتے ہیں کہ کچھ لوگوں کو کچھ وقت کے لیے دھوکے میں رکھا جا سکتا ہے، لیکن پوری قوم کو ہر وقت بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ آئین اظہارِ رائے کی آزادی دیتا ہے مگر اسی آئین میں واضح ہے کہ قومی سلامتی، ریاستی سالمیت اور پاکستان کے دفاع کے خلاف آزادیِ اظہار استعمال نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ یہ کون سا اصول ہے جو ایک سزا یافتہ شخص کو فوج اور اس کی قیادت کے خلاف بیانیہ تشکیل دینے کا حق دیتا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان کے خلاف بیانیہ اسی ذہنی مریض کے اکاؤنٹ اور تحریک انصاف کے پلیٹ فارمز سے چلتا ہے۔ جب پوچھا جاتا ہے تو جماعت لاعلمی کا ڈرامہ کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس شخص کی دو دن پہلے کی گئی پوسٹ بھارتی میڈیا نے کس طرح پاکستان مخالف پروپیگنڈے میں استعمال کی، یہ سب نے دیکھا۔ بھارتی میڈیا بڑی خوشی سے اسی زبان کو آگے بڑھاتا ہے جو یہاں سے فراہم کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ شخص اپنی پارٹی کے اُن ارکان کو غدار کہتا ہے جو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی جائیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کے مطابق جو بھی افواج پاکستان سے بیٹھ کر سیکھتا ہے، وہ غدار ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں جب یونیورسٹی میں جا کر طلبا سے ملتا ہوں تو کیا وہ بھی غدار ہو جاتے ہیں؟ تم ہو کون، اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو، تمہارے اندر کتنی فرسٹریشن ہے؟
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ نو مئی کے واقعات اسی ذہنی بیماری کی جھلک تھے۔ جو شخص جی ایچ کیو پر حملہ کروانے پر آمادہ ہو سکتا ہے، شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کروا سکتا ہے اور قومی نشانات کو آگ لگوا سکتا ہے، اسے فوج کو غدار کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ وہ شخص شیخ مجیب سے متاثر ہے اور اسی تقسیم پسند بیانیے کو دہراتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فوج کے خلاف جھوٹا بیانیہ پہلے یہاں سے بنایا جاتا ہے، پھر بیرون ملک بیٹھے لوگ اسے بڑھاتے ہیں، اور اس کے بعد بھارتی میڈیا اسے پاکستان مخالف بیانیے میں بدل دیتا ہے۔ یوں یہ محض سیاسی شور نہیں رہتا بلکہ پاکستان کے لیے ایک سنگین سیکیورٹی مسئلہ بن جاتا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ لوگ خوارج سے بات چیت کی بات کرتے ہیں اور انٹیلی جنس بنیادوں پر آپریشن کی مخالفت کرتے ہیں۔ افغانستان پالیسی پر انگلی اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیا پاکستان کی سیکیورٹی کابل یا دہلی سے آئے گی؟ اگر ان کی منطق پر چلیں تو جب بھارت نے مئی میں حملہ کیا تو کیا ہم خاموش بیٹھ جاتے؟ اگر یہ شخص اس وقت ہوتا تو حملے کے بعد کشکول لے کر دہلی مذاکرات کیلئے نکل پڑتا۔
انہوں نے کہا کہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ سیکیورٹی بھیک سے نہیں ملتی، ورنہ آج غزہ اور لیبیا کا یہ حال نہ ہوتا۔ سیکیورٹی شیطانی اور حملہ آور قوتوں کے خلاف ڈٹ جانے سے ملتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ریاست کے بغیر نہ ہماری پہچان ہے نہ بقا، اسی لیے فوجی جوان ہر روز شہادت دیتے ہیں۔ کوئی شخص ریاست سے بڑا نہیں ہو سکتا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان میں جھوٹ اور فریب کا کاروبار اب نہیں چلے گا۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس کی ذات ریاست سے زیادہ اہم ہے تو وہ شدید غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ ہم نے ریاست کے تحفظ کی قسم کھائی ہے اور ہم ڈٹے رہیں گے۔ ہم کہیں نہیں جا رہے کیونکہ ہم حق پر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخواہ میں کرپشن، لوٹ مار اور سیاسی دہشت گرد نیٹ ورکس پر پردہ ڈالنے کے لیے اس شخص کی پوری سیاست فوج مخالف بیانیہ بنانے پر چلتی ہے۔ وہی شخص کہتا تھا ملک ڈیفالٹ ہو جائے گا، لیکن ایسا نہ ہوا۔ وہ کہتا تھا فوج لڑ نہیں سکتی، لیکن فوج نے لڑ کر دکھایا اور دنیا نے اس کی گونج سنی۔
انہوں نے کہا کہ اس شخص کی پوری سیاست نفرت، جھوٹ، مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن پر ہے۔ ملاقات کا شور مچایا جاتا ہے، اور جب ملاقات ہو جائے تو فوراً فوج کے خلاف مضمون لکھ دیا جاتا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جب تک پاکستان ہے اور پاکستان ہمیشہ رہے گا، پاکستانی فوج بھی رہے گی۔ ہم ان بیمار ذہنوں کی لغویات کا جواب دیتے رہیں گے اور ڈٹے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ معرکۂ حق کی پوری جنگ کا اصل معمار فیلڈ مارشل سید عاصم منیر تھے، جنہوں نے بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہونے کا حوصلہ دکھایا اور خوارج کے فتنے کے بارے میں جس واضح پالیسی نے قوم کو راستہ دکھایا، وہ پہلے کبھی نہیں دکھائی گئی۔ اور یہی شخص انہی کے خلاف بیانیہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ کیا اسے لگتا ہے کہ وہ اس سے بچ نکلے گا؟ ہرگز نہیں۔ عوام اور فوج کے درمیان دراڑ ڈالنے کی اس کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ چاہے وہ کچھ بھی کر لے، پاکستانی فوج اور عوام کے درمیان دراڑ کوئی نہیں ڈال سکتا۔ انہوں نے میڈیا کے کردار پر بھی بات کی اور کہا کہ ہر چیز پر سیاست حاوی کر دی گئی ہے۔ قومی میڈیا نے معرکۂ حق میں ثابت کیا کہ متحد ہو کر وہ بڑے بین الاقوامی نیٹ ورکس کو شکست دے سکتا ہے، مگر رات سات سے گیارہ بجے تک صرف سیاست ہوتی ہے جبکہ عوام کے اصل مسائل پر گفتگو نہیں ہوتی۔ سیلاب میں اربوں ڈالر کا پانی ضائع ہوا کیونکہ ذخیرہ کرنے کی سہولت نہیں، مگر یہ مسئلہ میڈیا میں جگہ نہیں پاتا۔
انہوں نے کہا کہ ملک کا ٹھیکہ فوج نے اکیلے نہیں لیا، سب نے مل کر لیا ہے۔ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہے اور عوامی مسائل پر توجہ دے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فوج نے کبھی کسی شخص کے بارے میں اتنا دوٹوک اور غیر مبہم مؤقف نہیں اپنایا جتنا آج کیا، کیونکہ اب وقت آ گیا ہے کہ قوم کو بتایا جائے کہ یہ بیانیہ چلانے والا کون ہے، کیوں کر رہا ہے اور اس کے عزائم کیا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فوج آئین کے مطابق قائم جمہوری اور پارلیمانی نظام پر یقین رکھتی ہے اور ملک کو اسی نظام کے تحت چلایا جانا چاہیے۔ انہوں نے خوارج کے بارے میں کہا کہ ہم ان سے بات نہیں کریں گے کیونکہ ان کی خودساختہ تشریحِ اسلام سے ہم متفق نہیں اور انہوں نے خصوصاً خیبرپختونخواہ کی عوام پر بہت ظلم کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چیف آف ڈیفنس فورسز کے آپریشنل ہیڈکوارٹر کی تشکیل جاری ہے اور فوج نہ میڈیا کی خواہشات پر چلتی ہے نہ سوشل میڈیا کے دباؤ پر۔ ہم ایک پروفیشنل فوج ہیں اور ہر کام طریقے سے کرتے ہیں۔ انہوں نے آخر میں کہا کہ جو کچھ پاکستان اور اس کی بنیادوں کے خلاف کیا جا رہا ہے وہ صرف ایک ذہنی مریض ہی کر سکتا ہے، اور ہم نے آج جو بات کہی ہے وہ اس لیے پہلے کبھی نہیں کہی کیونکہ اس شخص نے وہ کام کیا ہے جو اس سے پہلے کبھی کسی نے نہیں کیا۔





