اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت 15 ماہ سے جاری کارروائی میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی جانب سے 14 ماہ قید بامشقت کی سزا سنا دی گئی ہے جو 11 دسمبر 2025 کو باضابطہ طور پر نافذ ہو گی۔
فیض حمید کو کن جرائم کی بنیاد پر سزا سنائی گئی؟
پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پر 4 سنگین الزامات عائد کیے گئے تھے جن میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، ریاست کی سلامتی اور بقاء کے منافی آفشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات و سرکاری وسائل کا غلط استعمال اور شہریوں کو ناجائز نقصان پہنچانا شامل ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی (انٹر سروسز انٹیلیجنس) کے خلاف تمام الزامات ثابت ہونے والے سزا سنائی گئی ہے جبکہ سیاسی عناصر کے ساتھ ملی بھگت، سیاسی افراتفری اور عدم استحکام کے معاملات الگ سے دیکھے جا رہے ہیں۔
فیض حمید کون سی سیاسی سرگرمیوں میں ملوث رہے؟
لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف ثابت ہونے والے الزامات میں سب سے پہلا سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا ہے، یہ سرگرمیاں ممکنہ طور پر دورانِ ملازمت اور بعد از ریٹائرمنٹ دونوں طرح کی ہو سکتی ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف بطور ڈی جی آئی ایس آئی سیاسی مداخلت کے الزامات شد و مد کے ساتھ لگائے جاتے رہے ہیں جن میں سابق وزیراعظم عمران خان اور اُن کی پارٹی پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حمایت جبکہ سابق وزیراعظم نواز شریف اور اُن کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مخالفت میں سیاسی معاملات پر اثر انداز ہونے کے سنگین الزامات شامل ہیں۔
سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف پی ٹی آئی دورِ حکومت میں عمران خان کے سیاسی مخالفین کو جیلوں میں قید کرنے، قانون سازی کیلئے اسمبلی اجلاسوں میں اراکین کی حاضری پوری کروانے اور بجٹ منظور کروانے کیلئے بھی اثر انداز ہونے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ اُن کے خلاف اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی کی سیاسی وفاداریاں تبدیل کروانے کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں جبکہ سابق وزیراعظم نواز شریف بھی اپنی تقریروں میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف سنگین نوعیت کے الزامات عائد کر چکے ہیں۔
فیض حمید نے ریاست کی سلامتی و بقاء کے منافی آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کیسے کی؟
سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پر فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں دوسرا ثابت ہونے والا الزام ریاست کی سلامتی و بقاء کے منافی آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔ ممکنہ طور پر یہ الزامات دورانِ ملازمت افغان پالیسی، سنگین نوعیت کے دہشتگردوں کی پاکستانی جیلوں سے رہائی اور حساس خفیہ معلومات یا راز اِفشا کرنے کے حوالہ سے ہو سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی دورِ حکومت میں مبینہ طور پر ایک سو سے زائد سنگین دہشتگردوں کو پاکستانی جیلوں سے رہا کیا گیا جبکہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء اور طالبان کی حکومت قائم ہونے پر اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے کابل کا دورہ کیا جس کو وسیع پیمانے پر پاکستان کی برسوں سے قائم افغان پالیسی کی خلاف ورزی اور قومی سلامتی و بقاء کے منافی اقدام قرار دیا گیا۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف اُن کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی یہ الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ وہ اقتدار سے پی ٹی آئی کے بےدخل ہو جانے کے بعد سیاسی افراتفری پھیلانے کیلئے سابق وزیراعظم عمران خان کی حمایت میں حساس نوعیت کی ادارہ جاتی معلومات کو استعمال کرتے رہے ہیں یا انہیں سابق وزیراعظم عمران خان تک پہنچاتے رہے ہیں۔
فیض حمید نے اختیارات و سرکاری وسائل کا ناجائز استعمال کیسے کیا؟
فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں ثابت ہونے والا تیسرا الزام لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی جانب سے اختیارات و سرکاری وسائل کا ناجائز استعمال ہے۔ ممکنہ طور پر یہ الزامات اسلام آباد (فیض آباد) میں تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے دھرنے، سیاسی نوعیت کے مقدمات میں ججز پر اثر انداز ہونے، میڈیا چینلز یا نمائندوں کو دھمکانے اور قریبی افراد کو ناجائز فائدے پہنچانے کیلئے غیر آئینی و غیر قانونی اقدامات سے متعلق ہو سکتے ہیں۔
سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پر دارالحکومت (فیض آباد) میں ایک مذہبی جماعت (ٹی ایل پی) کا دھرنا پلان کرنے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں جبکہ یہ الزامات سب سے پہلے اُس وقت سامنے آئے جب ٹی ایل پی اور حکومت کے درمیان معاہدہ کروانے کی بات سامنے آئی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید پر یہ الزام عائد کر چکے ہیں کہ انہوں نے بطور ڈی جی آئی ایس آئی سابق وزیراعظم نواز شریف اور اُن کی بیٹی مریم نواز کے خلاف مقدمات میں اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف پیمرا، میڈیا چینلز اور صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے اور انہیں ڈکٹیشن دینے کے الزامات بھی لگائے جاتے رہے ہیں۔ سینئر صحافی اعزاز سید یہ الزام عائد کر چکے ہیں کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید نے بطور ڈی جی آئی ایس آئی کچھ میڈیا چینلز کی نشریات بند کرا دیں اور پھر نشریات بحالی کیلئے شرائط رکھیں کہ نواز شریف کو چور کہا جائے، عمران خان کی تعریفیں کی جائیں، عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید نہ کی جائے اور کچھ صحافیوں کے منہ بند کیے جائیں یا پھر انہیں نکال دیا جائے۔
فیض حمید نے شہریوں کو ناجائز نقصان کیسے پہنچایا؟
لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں ثابت ہونے والا چوتھا الزام شہریوں کو ناجائز نقصان پہنچانا ہے جو ممکنہ طور پر نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز پر قبضہ کرنے کیلئے اُن کے مالکان یا اہم افراد کو ہِراساں یا اغواء کرنے سے متعلق ہو سکتے ہیں۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو سپریم کورٹ کے حکم پر 12 اگست 2024 کو ٹاپ سٹی کی کورٹ آف انکوائری شروع کیے جانے کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔
وہ معاملات جو ابھی الگ سے دیکھے جا رہے ہیں
پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف سیاسی عناصر کے ساتھ ملی بھگت، سیاسی افراتفری اور عدم استحکام کے معاملات الگ سے دیکھے جا رہے ہیں۔
یہ معاملات کون سے ہو سکتے ہیں اِس حوالے سے یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم آج سنایا گیا فیصلہ بلاشبہ تاریخی ہے۔ ملکی تاریخ میں اِس سے پہلے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس میں ایک سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو 14 ماہ قید بامشقت کی سزا سنا کر مزید معاملات کا بھی عندیہ دیا گیا ہو۔








