اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — افغانستان کے ممتاز علما، مفتیان اور مشائخ نے کابل میں ایک اہم اجلاس کے بعد ایک جامع اور متفقہ اعلامیہ جاری کیا ہے، جس میں اسلامی امارت کی شرعی حیثیت، ریاستی خودمختاری، بیرونی مداخلت کے خلاف دفاع، اور کفار خصوصاً غیر اسلامی اقوام کے ساتھ تعلقات کی شرعی حدود کو ایک منظم فریم ورک کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
یہ اعلامیہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغانستان اندرونی استحکام اور عالمی سطح پر سفارتی بحالی کے دوہرے چیلنج سے گزر رہا ہے۔ دی تھرسڈے ٹائمز اس اعلامیے کے مرکزی نکات اور اس کے ممکنہ اثرات کا تفصیلی جائزہ پیش کر رہا ہے۔
اسلامی امارت: ایک شرعی و قانونی حیثیت کا اعلان
اعلامیے میں اسلامی امارت افغانستان کو ایک مکمل شرعی اور اسلامی نظام قرار دیا گیا ہے۔ علما نے اسے افغان قوم کی طویل قربانیوں، جہاد اور جدوجہد کا ثمر قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نظام کی اطاعت اور حمایت تمام افغان مسلمانوں پر شرعاً لازم ہے۔ علمائے کرام کے مطابق اسلامی امارت نہ صرف شرعی احکامات کی محافظ ہے بلکہ انصاف، امن اور دینی اقدار کے فروغ کی ضمانت بھی فراہم کرتی ہے۔
ملکی دفاع: ہر مسلمان پر فرضِ عین
کمزور داخلی ڈھانچے یا بیرونی جارحیت کی صورت میں ملکی دفاع کو فرضِ عین قرار دیتے ہوئے علما نے کہا کہ اسلامی نظام، افغان سرزمین اور دینی تشخص کے تحفظ کیلئے ہر شہری کی شرکت لازم ہے۔
اس دفاع کو ایک مقدس جہاد کا درجہ دیا گیا اور عوام سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اندرونی اور بیرونی خطرات کے مقابلے میں متحد رہیں۔
اندرونی و بیرونی دشمنوں کے خلاف شرعی موقف
اعلامیے میں واضح کیا گیا کہ ایسے عناصر، خواہ اندرونی ہوں یا بیرونی، جن کا مقصد اسلامی امارت کے نظم کو کمزور کرنا ہو، ان کی حمایت شرعاً ناجائز ہے۔ اسلامی امارت کو ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کا مکمل شرعی اختیار حاصل ہے اور شہریوں پر ان کی بیان سازی یا عسکری مدد سے اجتناب لازم ہے۔
بیرون ملک مسلح کارروائی کی سخت ممانعت
فتویٰ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ کوئی افغان شہری اسلامی قیادت کی واضح اجازت کے بغیر کسی غیر ملکی سرزمین پر لڑائی یا عسکری کارروائی میں حصہ نہیں لے سکتا۔ علما کے مطابق ایسے اقدامات ریاستی خودمختاری اور عالمی قوانین کے منافی ہیں اور ان کی روک تھام حکومت کی ذمہ داری ہے۔
امتِ مسلمہ میں اتحاد کی ضرورت
علمائے کرام نے تمام جہادی گروہوں، مکاتبِ فکر اور قبائل سے مطالبہ کیا کہ باہمی اتحاد، برداشت اور ہم آہنگی کو فروغ دیں۔ ان کے مطابق گروہی مفادات، داخلی اختلافات اور باہمی تنازعات امت کی کمزوری کا باعث بنتے ہیں اور دشمن ک فائدہ پہنچاتے ہیں۔
کفار کے ساتھ تعلقات: شرعی حدود کی وضاحت
فتویٰ میں واضح کیا گیا کہ ان اقوام کے ساتھ دیرپا یا مذہبی بنیادوں پر اتحاد شرعاً ناجائز ہے جو توحید کے منکر ہوں، آسمانی کتابوں پر ایمان نہ رکھتے ہوں اور کئی خداؤں کے عقیدے پر قائم ہوں۔
تاہم، ایک نرم مؤقف کے طور پر علما نے یہ بھی کہا کہ اگر مسلم معاشرہ وجودی خطرے سے دوچار ہو اور اہلِ کتاب یا اسلامی دنیا سے کوئی مدد نہ مل رہی ہو، تو وقتی اور محدود تعاون بعض شرائط کے ساتھ قابلِ قبول ہو سکتا ہے، لیکن اسے مستقل دوستی یا دفاعی اتحاد کی شکل نہیں دی جا سکتی۔





