تجزیہ: واشنگٹن میں انڈیا فرسٹ پالیسی کا خاتمہ، رواں برس پاکستان امریکا کا اہم شراکت دار بن گیا، واشنگٹن ٹائمز

واشنگٹن میں انڈیا فرسٹ پالیسی کا خاتمہ، سال 2025 انقلابی ثابت ہوا جس میں پاکستان امریکا کا اہم شراکت دار بن گیا۔ جس پاکستان کو واشنگٹن میں مشتبہ اور تزویراتی طور پر محدود سمجھا جاتا تھا، مئی میں بھارت سے جھڑپ کے بعد خطہ کا اہم کھلاڑی سمجھا جانے لگا ہے۔

spot_imgspot_img

واشنگٹن (تھرسڈے ٹائمز) — امریکی اخبار ’’واشنگٹن ٹائمز‘‘ نے لکھا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے مابین تعلقات کیلئے 2025 انقلابی ثابت ہوا ہے جہاں واشنگٹن میں ’’انڈیا فرسٹ‘‘ والی پالیسی تبدیل ہوئی ہے جبکہ خطہ میں پاکستان ایک اہم سٹریٹیجک ملک بن کر ابھرا ہے، ایک سال قبل جس پاکستان کو واشنگٹن میں سیاسی طور پر مشتبہ اور سٹریٹیجک طور پر محدود سمجھا جا رہا تھا وہی پاکستان 2025 کے اختتام تک ایک ابھرتے شراکت دار کے طور پر پیش کیا جانے لگا ہے۔

واشنگٹن ٹائمز کے مطابق رواں برس جنوری کے آغاز تک امریکا اور پاکستان کے تعلقات سَرد مِہری اور بداعتمادی کے سائے میں تھے، واشنگٹن میں اسلام آباد کو طالبان کے حوالے سے مشتبہ نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور اسے ایک ایسا ملک سمجھا جاتا تھا جس کی سٹریٹیجک افادیت محدود ہے اور جس کے سکیورٹی ادارے پر دوغلی پالیسیز کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ اگرچہ تباہ کن سیلاب کے بعد بحالی اور مجموعی قومی پیداوار میں بہتری کے اشارے موجود تھے تاہم ملکی معیشت اب بھی بیرونی مالی سہاروں کی محتاج تھی اور سفارتی محاذ پر پاکستان اکثر دفاعی پوزیشن میں دکھائی دیتا تھا۔

امریکی اخبار نے لکھا ہے کہ 2025 کے اختتام تک یہ منظر نامہ یکسر مختلف دکھائی دے رہا ہے، امریکا کے اندر پالیسی حلقوں میں چند ماہ پہلے تک ایک مسئلہ سمجھے جانے والے پاکستان کو اب ایک ایسے شراکت دار کے طور پر پیش کیا جانے لگا ہے جو جنوبی ایشیاء اور مشرقِ وسطیٰ کے متعدد معاملات میں اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ تبدیلی محض بیانیہ کی حد تک نہیں رہی بلکہ اِس کے اثرات روابط، ملاقاتوں اور سکیورٹی تعاون کی صورت میں بھی ظاہر ہوئے ہیں۔

بداعتمادی سے روابط تک

اِس سَرد مِہری کے پگھلنے کی ابتدائی علامت پَسِ پَردہ انسدادِ دہشتگردی رابطوں کی بحالی اور تبادلہ خیال کا ایک سلسلہ تھا۔ واشنگٹن میں یہ تاثر ابھرنے لگا کہ اسلام آباد عملی سطح پر تعاون کی طرف بڑھ رہا ہے، پھر مارچ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک قومی خطاب میں پاکستانی کوششوں کی غیر متوقع تعریف نے پالیسی حلقوں ہِلا کر رکھ دیا۔ ایسے وقت میں، جب عمومی رائے پاکستان کے بارے میں سخت تھی، یہ جملے ایک نئی سمت کا اشارہ محسوس ہو رہے تھے۔

واشنگٹن میں قائم بین الاقوامی سطح کے اخبار کے مطابق اسلام آباد نے بھی اِس موقع کو فوراً بھانپ لیا، تعاون کے ہر اشارے کو واشنگٹن میں غیر متوقع کریڈٹ ملا جو مزید رابطوں کی بنیاد بنتا چلا گیا۔ طویل عرصہ سے محض لین دین کی حد تک جاری تعلقات اب نئی حقیقتوں کے مطابق زیادہ معنی خیز ہونے لگے۔

چائنہ فیکٹر اور واشنگٹن کی ہچکچاہٹ

واشنگٹن ٹائمز نے لکھا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ میں ابتدائی طور پر پاکستان سے متعلق بےچینی موجود تھی جبکہ چین کے ساتھ پاکستان کے قریبی تعلقات نے اِس میں مزید اضافہ کر دیا۔ غالب توقع یہی تھی کہ واشنگٹن میں بھارت کو ترجیح دی جائے گی اور پاکستان کو پَس مَنظَر میں رکھا جائے گا۔

لیکن جیسے جیسے ’’انڈیا فرسٹ‘‘ اندازِ فکر آگے بڑھا، بھارت کے داخلی رخ اور علاقائی طرزِ عمل سے متعلق خدشات بھی نمایاں ہوتے گئے۔ اکثریتی سیاست، شہری آزادیوں پر قدغن کی بحث، عسکری کارکردگی اور سفارتی سخت گیری کی شہرت جیسے عوامل وہ سوالات اٹھانے لگے جو اِس سے قبل اکثر نظر انداز کر دیئے جاتے تھے، ایسی صورتحال میں یہ سوال ابھر کر سامنے آیا کہ کیا بھارت واقعی وہ مستحکم اور قابلِ اعتماد ستون ہے جس پر واشنگٹن اپنی علاقائی حکمتِ عملی کھڑی کر سکے!

مئی کی جھڑپ اور بیانیہ میں تیز تبدیلی

ایک فیصلہ کن موڑ پاکستان اور بھارت کے درمیان مئی کی مختصر مگر شدید جھڑپ کے بعد سامنے آیا جس میں پاکستان کی کارکردگی نے کئی مبصرین کے مطابق واشنگٹن کی توقعات تبدیل کر دیں۔ اِس واقعہ نے عسکری نظم و ضبط اور سٹریٹیجک فوکس کا وہ پہلو نمایاں کیا جس کو امریکا میں پہلے کم اہم سمجھا جاتا تھا۔ واشنگٹن میں وہ آوازیں جو پاکستان کو ’’زوال پذیر‘‘ کہہ کر غیر اہم قرار دیتی تھیں، اسے دوبارہ ایک سنجیدہ علاقائی کھلاڑی سمجھنے لگی ہیں۔

یہاں ایک اور سیاسی پہلو بھی اہم بن گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ بندی کی کوششوں کے حوالہ سے جس ردعمل کی توقع کی تھی وہ بھارت کی جانب سے پوری طرح نہیں ملا جبکہ پاکستان نے اُس اقدام کو سراہا۔ امریکی صدر کی سیاسی شخصیت میں جنگیں ختم کرنے والے بیانیہ کی کشش ہمیشہ رہی ہے اور اسی لیے شکریہ و پذیرائی جیسے اشاروں نے بھی تعلقات کے ماحول پر اثرات مرتب کیے۔

عسکری ڈھانچہ میں تبدیلی اور نئی علامتیں

اسی دوران پاکستان کی فوجی جدید کاری اور کمانڈ ڈھانچے میں تبدیلیوں کی خبریں بھی سامنے آئیں جن میں نئے اعلیٰ عہدے اور فیصلہ سازی کی تنظیمِ نو شامل بتائی جاتی ہے۔ اِن علامتوں نے یہ پیغام دیا کہ پاکستان اپنی دفاعی ترجیحات اور ادارہ جاتی ساخت کو نئی صورتحال کے مطابق ڈھال رہا ہے اور پاکستانی خارجہ حکمتِ عملی میں زیادہ مقصدیت دکھائی دے رہی ہے۔

فیلڈ مارشل عاصم منیر اور وائٹ ہاؤس کی قربت پر مبنی سیاست

واشنگٹن کی سیاست میں شخصیات کی قربت بھی اکثر پالیسی کے رخ پر اثر ڈالتی ہے۔ اسی تناظر میں پاکستانی آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کے حوالہ سے یہ تاثر ابھرا کہ ٹرمپ کے قریبی حلقوں میں اُن کی پذیرائی بڑھ رہی ہے۔ پھر وائٹ ہاؤس میں لنچ ملاقات کی خبر نے اِس رجحان کو علامتی طور پر مضبوط کیا کیونکہ پاکستان کی فوجی قیادت کیلئے اسے ایک غیر معمولی رسائی کے طور پر دیکھا گیا۔ بعد ازاں امریکا کے اہم عسکری مراکز میں اعلیٰ سطحی ملاقاتوں اور ریڈ کارپٹ استقبال جیسی تفصیلات نے اِس تاثر کو مزید تقویت دی کہ تعلقات ایک نئے مرحلہ میں داخل ہو رہے ہیں۔

پاکستان کیوں اہم بن رہا ہے!

واشنگٹن ٹائمز کے مطابق 2026 کے آغاز کے قریب یہ دلیل زیادہ سنائی دینے لگی ہے کہ پاکستان امریکا کیلئے متعدد جہتوں میں مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ ایران تک خاموش مگر قابلِ اعتبار رابطہ، غزہ کے بدلتے منظر نامہ میں ممکنہ کردار اور چین کے علاقائی اثر و رسوخ کے مقابل ایک نرم توازن جیسے نکات واشنگٹن کی گفتگو میں جگہ بنانے لگے۔ نتیجتاً پاکستان اچانک مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء کے کئی بڑے مکالموں میں دوبارہ شامل ہوتا دکھائی دینے لگا۔

کیا ’’انڈیا فرسٹ‘‘ ختم ہو گیا ہے؟

یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ واشنگٹن کی ’’انڈیا فرسٹ‘‘ سوچ مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے لیکن 2025 میں جو تبدیلی سامنے آئی ہے اُس نے یہ ضرور ثابت کیا ہے کہ امریکی پالیسی جامد نہیں اور خطہ میں رویوں، جنگ بندی، سفارتی انداز اور سکیورٹی تعاون جیسے عوامل توازن کو تیزی سے بدل سکتے ہیں۔ پاکستان کی یہ ’’واپسی‘‘ ابھی جاری عمل ہے جس کے آخری خدوخال نئی دہلی اور اسلام آباد کے آئندہ فیصلوں سے طے ہوں گے۔

واشنگٹن ٹائمز کے مطابق ایک سال قبل جس پاکستان کو واشنگٹن میں سیاسی طور پر مشتبہ اور سٹریٹیجک طور پر محدود سمجھا جا رہا تھا وہی پاکستان 2025 کے اختتام تک ایک ابھرتے شراکت دار کے طور پر پیش کیا جانے لگا ہے۔ یہ تبدیلی محض بیانیہ نہیں بلکہ جنوبی ایشیاء میں طاقت کے توازن اور امریکا کی ترجیحات کے دوبارہ تعین کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو آنے والے مہینے اِس سوال کا جواب دیں گے کہ یہ قربت ایک عارضی سیاسی موسم ہے یا پھر ایک نئی علاقائی حقیقت کا آغاز ہے۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

spot_img

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

error: